ایک قائد کے قرآنی اوصاف

*ایک قائد کے قرآنی اوصاف*

ڈاکٹر غوث محمد صاحب فیضانی ،ازہری 
EFL University HYD

ترتیب: خلیل احمد فیضانی 

اللہ تبارک و تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے 

فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪-  فَاعْفُ  عَنْهُمْ  وَ  اسْتَغْفِرْ  لَهُمْ  وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ-فَاِذَا  عَزَمْتَ  فَتَوَكَّلْ  عَلَى  اللّٰهِؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  یُحِبُّ  الْمُتَوَكِّلِیْنَ(159)


اللہ تبارک و تعالٰی نے اس آیت مبارکہ میں قیادت کے اوصاف کو بیان کیا ہے کہ  ایک قائد کے اندر، ایک لیڈر  کے اندر -چاہے وہ کسی بھی سطح کا قائد یا لیڈر ہو -غرض یہ کہ جس کے سایے میں یا  جس کے بینر تلے لوگ جمع ہوتے ہوں 
اس کے اندر کن کن اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔
 اللہ تبارک و تعالٰی نے جب کسی کو قائد چننا ہوتا ہے تو اسے کئی مشکلات سے گزارتا ہے اورsucsecfull  قائد اور کامیاب  لیڈر وہی ہے جو ان مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتا ہے 
اور ان کے سولیوشن کے لیے صبح شام تگ و دو کرتا  رہتا ہے ۔
 انسانوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں، بعض انسان جلد باز ہوتے ہیں ،نتیجہ جلدی دیکھنا چاہتے ہیں بعض جلد غصہ کرنے والے ہوتے ہیں ،بعض بے ترتیب ہوتے ہیں تو بعض ترتیب کو زیادہ پسند کرتے ہیں بعض بے تکلف ہوتے ہیں اور بعض کے انداز میں تکلف  ہوتا ہے
 بعض لا پراوہ ہوتے ہیں ان کو کتنا بھی کہا جائے دھیان نہیں دیتے ہیں 
 خیر اس طرح کے مزاج عام طور پر  لوگوں کے اندر موجود ہوتے ہیں ایک قائد کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ ان مزاجوں کے اوپر اپنی طرف سے ایک ایسا مزاج  قائم کرے کہ وہ  ان تمام کو اپنی چادر میں سمیٹ لے  یا  اپنے مزاج کی خوبصورتی میں ضم کر دے 
 اسی کو اللہ تبارک و تعالٰی اس  آیت میں بیان فرمایا۔
فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-
 اس آیت میں اللہ نے رحمت کا ذکر پہلے کیا اس کے بعد  فرمایا کہ آپ ان کے لئے نرم خو ہیں،
 یہ اللہ کی آپ پر خاص  رحمت ہے۔

 اے محبوب!یہ اللہ کا آپ پر فضل ہے کہ آپ ان لئے نرم خو ہیں کیوں کہ  اگر  ایسا نہ ہوتا 
وَ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلک 
 اگر آپ سخت مزاج ہوتے ترش رو ہوتے 
لانفضوا من حولک 
تو یہ آپ کے ارد گرد لگا  پروانوں کا یہ نورانی  ہجوم آپ سے چھٹ جاتا 

 کیوں کہ  ان کے مزاج الگ ہیں کوئی کسی حالت میں ہے کوئی کس مزاج کا حامل ہے، سب کا سوشل اسٹیٹس بھی الگ ہے، کوئی نو مسلم  ہے کوئی دولت مند ہے، کوئی غریب ہے،  کوئی قبیلے کا سردار ہے ، کوئی شہسوار ہے۔
 ہر ایک اپنے اپنے فن میں ماہر ہے
 تو اب یہ  مختلف  المزاج جو قبیلے ہیں جن میں ایک قبیلہ دوسرے کو نہیں مانتا
 دوسرا قبیلہ تیسرے  کو نہیں مانتا 
جن کے جھگڑے چالیس چالیس سالوں سے جاری ہیں۔
تو اب ان مختلف المزاج لوگو ں کے درمیان اللہ تعالٰی نے آپ کو قائد بنا کر بھیجا تو وہ  نرمی اور اعلیٰ ظرف عطا کیا، کہ سب موم ہو گئے،  پھر ارشاد فرمایا 
ولو کنت فظا غلیظ القلب ۔۔۔
اگر آپ ترش رو ہوتے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ 
 مختلف المزاج لوگوں کی  جو اجتماعیت  آپ نے قائم کی ہے وہ اجتماعیت ختم ہوکر رہ جاتی  اور اگر  اجتماعیت ختم ہو جاتی تو اسلام ہی ختم ہو جاتا 
لیکن اللہ کی رحمت کہ اس نے آپ کو نرمی دی اور اتنی نرمی دی کہ حدیث پاک  میں آتا ہے کہ ایک اعرابی  نے آپ کے گلے میں اچانک ایک کھردری   چادر ڈالی  اور  اس کو زور  زور سے تاؤ دینے لگا یعنی بے ڈھنگم طریقے سے کھینچنے لگا 
سوچئے!
 ایک آدمی اپنے  حلقہ احباب میں بیٹھا ہو اور کوئی آدمی  اچانک سے آئے اور گلے میں چادر ڈال کر زور زور  سے کھینچنے لگے  تو تصور کیجئے ، اسے  کتنا خراب محسوس ہوگا اور کس قدر غصہ آئے گا؟
 اس اعرابی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کرخت لہجے میں  یہ بھی کہا کہ 
مجھے میرا حق دیجئے
 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  مسکرائے،اور  جبین نور پر ایک شکن بھی نہیں  آئی،آپ کو  غصہ نہیں آیا اتنی نرمی اللہ تبارک و تعالٰی نے آپ  کو عطا کی تھی
 اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالی کا آپ پر فضل ہے کہ اس نے آپ کو نرم خو بنایا 
اس لئے آپ 
ان جاہلوں اور سفاکوں کے درمیان،  ان ایک دوسرے پر ظلم کرنے اور ایک دوسرے پر قتل و غارت کرنے والوں  کے درمیان اجتماعیت پیدا کرنے پر آپ قادر ہوۓ کیوں کہ آپ اللہ کے فضل سے نرم خو تھے اس کے بعد اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے  ارشاد فرمایا کہ فاعف عنہم... 
اب ان مختلف المزاج لوگو ں کو معاف کیجئے
 معافی کاانداز پیدا کیجئے
 بہت سے آئیں گے آپ کو ستائیں گے  آپ کو پریشان کرنے کی اسکیمیں لڑائیں گے  آپ  کے  خلاف  باتیں کریں گے 
دینی  کاموں میں آپ کا ساتھ نہیں دیں گے بلکہ اب الٹا   آپ کے کام میں رکاوٹیں اور اڑچنیں  پیدا کریں گے  آپ کی اجتماعیت کو توڑنے کی کوشش کرینگے لیکن آپ انہیں معاف کر دیجئے معاف کریں گے تو ان شاء اللہ تعالی 
 اللہ ان کے دلوں کو بدل دے گا  پھر آگے فرمایا :-واستغفر لھم..
 صرف معاف ہی مت کیجئے، بلکہ ان کے لئے استغفار بھی کیجئے ۔
استغفار کا مطلب یہ بھی ہے کہ یا اللہ ان کے دلوں کو بدل دے 
"یا مقلب القلوب ثبت قلوبھم علی دینک"
اس طرح سے ان کے لئے دعا کیجئے کہ جو انہوں نے حدود سے تجاوز کیا ہے ان کو اللہ معاف کرے ۔فاعف عنہم واستغفر لھم وشاورھم فی الامر...اور ان سے مشورہ کیجئے
 وہ سرکش ہیں ،معاندین ہیں، آپ سے دور بھاگ رہے ہیں،
 آپ کے  کاموں میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں  
سو انہیں اپنا کام کرنے دیں  
آپ انہیں  قریب کیجئے، جب قریب ہو جائیں تو اُن سے امور میں مشاورت کریں، اُنھیں رائے زنی کا موقع دیں۔
 ان شاءاللہ ایسا ہوگا کہ ان  کا دل بدل  جائے گا
 ان کے دل کی  دنیا بدل جائے گی
 وہ آپ کے  ایسے  ساتھی بن جائیں گے  کہ  جس کے مقابلے میں آپ  کا  کوئی اور ساتھی نہیں ہوگا۔
 جب آپ کسی سے مشورہ کرتے ہیں گویا کہ آپ اسے بڑکپن دیتے ہیں اسے بڑا بناتے ہیں 
چھوٹا عام طور پر بڑے سے مشورہ کرتاہے، مگر جب بڑا چھوٹے کی رائے لیتا ہے، تو چھوٹے کے دل میں اپنے بڑے کی عزت اور بڑھ جاتی ہے۔ اور یہی ایک قائد کو ضرورت ہے کہ اس کے folllowers اسے دل سے قبول کریں۔
 اسی لیے فرمایا گیا۔۔۔۔
وشاورھم فی الامر...آپ انہیں بڑا بنائیں جب وہ بڑے بنیں گے  تو آپ کے لئے آپ کے دین کے لئے اور اسلام کے لئے سر فروشی کی تمنّا لے کر اٹھیں گے۔
 اور ایسا  ہوا بھی ہے جس پر  تاریخ گواہ ہے۔
 وشاورھم فی الامر... ان سے مشورہ کیجئے، انہیں قریب کیجئے، دور مت کیجئے  وہ دور بھاگ رہے ہیں انہیں اور قریب کیجئے اور جب ان کو معاف  کردیا ان کے لئے  استغفار کیا ان سے مشورے کئے ان کی تعریفیں کی ان کو بڑا بنایا۔ اور اجتماعیت کو بحال کر کیا

 اب فرمایا کہ 

فَاِذَا  عَزَمْتَ  فَتَوَكَّلْ  عَلَى  اللّٰهِؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  یُحِبُّ  الْمُتَوَكِّلِیْنَ

تو اب
 کام پر فوکس کیجئے 
دیکھئے!
 اب کام کا نمبر آیا  ،پہلے  ماحول سازی کی، اجتماعیت کو بر قرار رکھا اس کے بعد کا م پر فوکس کرنے کا حکم دیا اور عزم مصمم کی ترغیب دلائی... فرمایا
فاذا عزمت ...اب جب آپ نے جب کام کا پختہ ارادہ کر لیا 
فتوکل علی اللہ...اب کسی کی پرواہ نہیں اب اللہ پر بھروسہ کیجئے 
ان اللہ یحب المتوکلین...بیشک اللہ تبارک و تعالٰی متوکلین کویعنی  جو اس پر بھروسہ کرنے والے ہیں  
انہیں کبھی مایوس نہیں فرماتا ہے بلکہ انہیں پسند فرماتا ہے 
یہ  اس آیت رحمت  کا خلاصہ ہے
 اور یہ بہت کچھ سکھاتا ہے کہ
 اجتماعیت کو کیسے برقرار رکھا جاۓ؟
 اپنے ماتحتو ں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاۓ؟
  ہم خود کیسے رہیں؟
ایک قائد کو کیسا ہونا چاہیے؟
 ایک نگراں کا لائف اسٹائل کیسا ہو؟ ایک لیڈر کی زندگی کیسی ہو؟
 اس آیت کریمہ  میں بہت کچھ بتایا گیا ہے 
سمجھنے والوں کے لئے اشارہ کافی ہے
اس لئے ہمیشہ اپنا مزاج ایسا رکھے کہ خوش مزاج رہیں 
 لوگوں کو قریب کریں ،ان  کی غلطیوں سے درگزر کریں  
جو ساتھ نہیں دے رہے ہیں 
 انہیں معاف کریں 
 معاف کرکے انہیں اور قریب کرنے کی کوشش کریں 
 ان شاءاللہ، اللہ کی مدد شامل حال ہوگی اللہ تبارک و تعالٰی ہماری اجتماعیت کو بر قرار رکھے اور اس مشن کو کامیاب فرمائے
 آمین ، ثم آمین ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے