*______________نادان دوست !!*
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
_____روشن مستقبل دہلی
دوپہر کا وقت تھا۔لوگ کھانے کے بعد گھروں میں سستا رہے تھے۔سورج کی حرارت اور کھانے کے بعد کی سستی سے چہل پہل برائے نام تھی۔اسی وقت میں جواں سال حضرت موسیٰ علیہ السلام شہر میں داخل ہوئے۔اچانک آپ کی نگاہ دو شخصوں پر پڑی جو آپس میں کسی بات پر الجھ رہے تھے۔حضرت موسیٰ قریب گیے تو معلوم ہوا کہ جھگڑنے والوں میں ایک شخص فرعونی تھا تو دوسرا بنو اسرائیل کا فرد۔اسرائیلی مظلوم تھا، مدد کا طلب گار ہوا۔فرعونی صاحب اقتدار قوم سے تھا اس لیے "دشمن سے پہلے دشمن کے حمایتی سے نپٹو" فلسفے کے مطابق آپ سے ہی الجھ پڑا۔جسارت اتنی کہ حملے پر اتر آیا۔حضرت موسیٰ نے اس کی شرارت روکنے کے لیے ایک گھونسہ استعمال کیا، نتیجہ وہ فرعونی دنیا ہی سے چل بسا۔
فَوَکَزَہٗ مُوۡسٰی فَقَضٰی عَلَیۡہِ۔(سورہ قصص:15)
"تو حضرت موسیٰ نے مکّا مارا اور اسے ہلاک کر دیا۔"
شکر تھا کہ اس وقت وہاں اور لوگ تھے نہیں، اس لیے وہ اسرائیلی اور موسیٰ علیہ السلام وہاں سے فوراً نکل گیے اور کسی کو پتا نہیں چلا کہ فرعونی کو کس نے قتل کیا؟ مگر پیغمبرانہ مزاج کی بنا پر حضرت موسیٰ کو قدرے افسوس تھا، اسی لیے بارگاہ مولیٰ میں یوں عرض کیا:
قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ فَاغۡفِرۡ لِیۡ۔(سورہ قصص:16)
"عرض کی، اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر زیادتی کی تو مجھے بخش دے۔"
نبی کی زبان سے کوئی بات نکلے اور خداوند قدوس قبول نہ فرمائے ایسا بھلا کب ممکن ہے، قلب موسیٰ کو ملال ہوا، لب ہلے، مناجات کی اور رب نے انہیں مژدہ سنایا:
فَغَفَرَ لَهٌ اِنَّهٌ ھُوَالۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ۔(سورہ قصص:16)
"تو رب نے اسے بخش دیا، بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔"
حق بیانی کی بنیاد پر حضرت موسیٰ ویسے ہی فرعونیوں کی نگاہوں میں کانٹا بنے ہوئے تھے، اوپر سے ایک فرعونی کا قتل ہوجانا، یقیناً نازک معاملہ تھا۔اس خیال کی بنا پر حضرت موسیٰ قدرے خائف تھے۔حالانکہ اب تک کسی کو معلوم نہ ہو سکا تھا کہ اس فرعونی کو کس نے قتل کیا ہے، مگر ایک دھڑکا تو تھا ہی! خیر خدا خدا کرکے رات گزری اور دن نکلا۔آپ گھر سے باہر آئے تو بازار میں پھر وہی اسرائیلی مل گیا، جو آج پھر ایک فرعونی سے جھگڑ رہا تھا۔اس نے آپ کو دیکھا تو کل کی طرح پھر مدد کی پکار لگائی۔حضرت موسیٰ کل کی بنا پر قدرے غصے میں تھے اس لیے اس پر ناراض ہوتے ہوئے فرمایا:
قَالَ لَهٌ مُوۡسٰۤی اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیۡنٌ۔(قصص:18)
"موسیٰ نے اس سے فرمایا بے شک تو کھلا گمراہ(جھگڑالو) ہے۔"
یہ بات حضرت موسیٰ نے اس کے جھگڑالو مزاج کی بنا پر کہی تھی۔کیوں کہ جب دشمن توانا اور ظلم کا متلاشی ہو تو مظلوم کو اپنی بے سرو سامانی کی بنیاد پر جھگڑے سے بچنا مناسب ہوتا ہے۔آپ نے اس کی جھگڑالو طبیعت پر ڈانٹ تو دیا لیکن اس کی مظلومیت کی بنیاد پر اسے فرعونی کے قبضے میں چھوڑنا بھی مناسب نہ سمجھا۔یہی سوچ کر اسے بچانے آگے بڑھے، مگر اسرائیلی شخص نہایت بے وقوف نکلا، اس نے آپ کی ڈانٹ پھٹکار سے یہ سمجھا کہ شاید حضرت موسیٰ اسے مارنے آرہے ہیں بس وہ بے وقوف چلایا اور کل کا راز فاش کر دیا:
قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اَتُرِیۡدُ اَنۡ تَقۡتُلَنِیۡ کَمَاقَتَلۡتَ نَفۡسًۢابِالۡاَمۡسِ۔(سورہ قصص: 19)
"وہ بولا اے موسیٰ کیا تم مجھے ویسا ہی قتل کرنا چاہتے ہو جیسا تم نے کل ایک شخص کو قتل کردیا۔"
ان سے سب حال دغاباز کہے دیتے ہیں
میرے ہم راز مرا راز کہے دیتے ہیں
کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلی بات بھلا واپس لوٹتی ہے؟ راز فاش ہو چکا تھا، اور وہ فرعونی جس سے اسرائیلی جھگڑا کر رہا تھا، اس راز سے واقف ہوچکا تھا۔اس نے جھگڑا چھوڑا، فوراً ہی دربار فرعون کی طرف دوڑ پڑا۔عرصہ دراز سے موسیٰ علیہ السلام کی حق بیانی اور عدل وانصاف کی باتوں سے فرعون ویسے ہی جلا بھنا بیٹھا تھا اس خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اب تک فرعون کو حضرت موسیٰ کے خلاف کوئی مضبوط بہانہ نہ مل سکا تھا مگر اس خبر نے وہ کمی پوری کر دی۔درباریوں نے کہا کہ موسیٰ کو قابو کرنے کا اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا۔اس نے ہمارے ایک آدمی کا قتل کیا ہے، لہذا بدلے میں حضرت موسیٰ کو بھی قتل کر دیا جائے تاکہ ہم ان سے محفوظ ہو جائیں۔قتل موسیٰ کا حکم نامہ جاری ہوا۔جس وقت یہ مشاورت چل رہی تھی وہاں حضرت موسیٰ کا ایک خیر خواہ حزقیل بن صبورا بھی موجود تھا۔اس منصوبے کو سن کر اس کے پاؤں تلے زمین نکل گئی، مگر عقل مند انسان تھا، جذبات پر قابو رکھا۔چہرے کے احساسات کو رتی بھر بھی نہ بدلنے دیا۔جیسے ہی فرعونیوں کی توجہ ہٹی فوراً ہی حضرت موسیٰ کی تلاش میں دوڑ لگا دی، یہاں تک کہ ایک مقام پر انہیں پالیا۔دربار فرعون کا سارا حال سنایا اور کہا کہ آپ کے حق میں یہی بہتر ہے کہ فوراً ہی یہ علاقہ چھوڑ کر کسی دوسرے مقام کی طرف نکل جائیں:
وَجَآءَ رَجُلٌ مِّنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ یَسۡعٰی قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ الۡمَلَاَ یَاۡتَمِرُوۡنَ بِکَ لِیَقۡتُلُوۡکَ فَاخۡرُجۡ اِنِّیۡ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیۡنَ۔(سورہ قصص:20)
"اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا آیا، کہا اے موسیٰ! بے شک فرعون کے درباری آپ کے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں تو آپ یہاں سے باہر نکل جائیے۔بے شک میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔"
آنے والا اگرچہ عام انسان تھا مگر دانا اور عقل مند شخص تھا، اس لیے حضرت موسیٰ کو اس کا مشورہ درست لگا۔حالانکہ آپ پیغمبر تھے مگر اچھا مشورہ قبول کرنا شان پیغمبری کے خلاف نہیں ہوتا، اس لیے آپ کو اس کا مشورہ پسند آیا۔وقت کم تھا، اور فرعونی گھات میں، اس لیے آپ فوراً ہی اس علاقے سے نکل پڑے:
فَخَرَجَ مِنۡہَا خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ۔(سورہ قصص:21)
"تو حضرت موسیٰ اس شہر سے ڈرتے ہوئے نکلے، اس انتظار میں کہ اب کیا ہوتا ہے۔عرض کی، اے میرے رب! مجھے ستمگاروں سے بچالے۔"
اس قرآنی واقعے میں اہل ایمان کے لیے بڑی رہنمائی ہے، جنہیں نکات کے طور پر درج کیا جاتا ہے:
🔸نادان دوست ہمیشہ نقصان ہی پہنچاتا ہے، جیسا کہ اس احمق اسرائیلی نے حضرت موسیٰ کو پہنچایا۔
🔹جذبات پر قابو رکھنا، عقل مندوں کی نشانی ہے۔جیسا کہ حزقیل بن صبورا نے حضرت موسیٰ کے قتل کی بات سن کر خود پر قابو رکھا کہ کہیں ان پر راز فاش نہ ہوجائے۔
🔸خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ وقت پر کی جائے۔جیسا کہ حزقیل نے کیا۔بے وقت کی خیر خواہی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
🔹اچھا مشورہ طبیعت پر گراں ہو تب بھی قبول کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیا۔ماں باپ، بھائی بہن سب کو چھوڑنا بہت مشکل تھا، مگر بھلائی اسی میں تھی۔اس لیے مشورہ قبول کیا۔
🔸قوت فیصلہ بھی اللہ کی بڑی نعمت ہے۔کئی بار حالات بہت نازک اور وقت بہت کم ہوتا ہے، ایسے میں فی الفور کوئی فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن جن کے پاس قوت فیصلہ ہوتی ہے وہ فوراً ہی مناسب فیصلہ کر لیتے ہیں جیسا حضرت موسیٰ نے کیا۔
🔹اپنی تمام تر کوششوں کے بعد بھی اصل اور آخری سہارا اللہ ہی کی ذات ہے، اس لیے اپنی تدبیروں کے باوجود اللہ تعالیٰ ہی سے رجوع کرنا چاہیے کہ تدبیروں میں تاثیر اور بغیر تدبیر بھی کامیابی وہی عطا کرتا ہے جیسا کہ حضرت موسیٰ نے اقدام ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ سے لو لگائی اور اسی سے امن اور پناہ کی دعا کی۔
ادھر دعا کی اُدھر بارگاہ ایزدی میں قبولیت کا پروانہ ملا۔فرعونی بھٹکتے رہے اور موسیٰ علیہ السلام ان کے جور وجبر سے بہت دور نکل چکے تھے۔ویسے تو یہ سب مشیت الٰہی کے تحت ہوا تھا لیکن اس کا بنیادی سبب ایک نادان دوست ہی تھا جس کی نادانی کے سبب حضرت موسیٰ کو ترک وطن اور فقر وفاقہ کی مصیبت اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔
دشمن دانا بلندت می کند
بر زمینت می زند نادان دوست
18 رمضان المبارک 1445ھ
29 مارچ 2024 بروز جمعہ
0 تبصرے