اسلام کے متعلق غیر مسلم دانشوروں کے تاثرات

اسلام کے متعلق غیر مسلم دانشوروں کے تاثرات

از: (مفتی) محمد صدیق حسن نوری بہرائچ شریف استاذ جامعۃ المدینہ ٹانڈہ امبیڈکر نگر یوپی

بلا شبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت روح انسانیت کے لیے ایک عظیم ترین نعمت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک کی ہر ہر ساعت کائنات کے لیے باعث فخر ہے، پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی از ولادت تا وصال عالم کے لیے مشعل راہ ہے  قرآن مجید کچھ یوں گویا ہے"لقد كان لكم فى رسول الله أسوة حسنة" یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے تو اپنے ہیں غیر بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت کے خطبے پڑھ رہے ہیں خود کفار قریش بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل بعثت صادق و امین جیسے القاب سے پکارتے تھے اور آپ کی تعریف و توصيف کے قائل تھے،
چنانچہ جلالین شریف میں ہے "ایک روز اخنس بن شریق نے ابو جہل سے پوچھا اے ابو الحکم اس وقت یہاں ہم دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں، مجھے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں بتاؤ وہ سچے ہیں یا جھوٹے" فقال والله إن محمدا لصادق وما كذب قط ولكن إذا ذهب بنو قصى باللواء والسقاية والحجابة والنبوة فما ذا يكون بسائر قريش" یعنی تو أبو جہل بولا خدا کی قسم محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)یقیناً سچے ہیں انہوں نے کبھی جھوٹ نہ بولا لیکن بھلا یہ بتاؤ کہ جب بنو قصی ہی کے حصے میں جھنڈے، پانی پلانے، خدمت حجاج اور نبوت ہوگی تو پھر باقی قریش کے لیے کیا بچے گا؟(سورة الأنعام قوله فإنه لا يكذبونك فى السر ص ١١٤ مجلس بركات)
حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو کہ آپ اپنی قوم کے سردار تھے، قبل از اسلام جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہلی بار حاضری دی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو جب حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا ایک خوبصورت منظر دیکھا تو اپنی قوم سے کہا"أى قوم والله لقد وفدت على الملوك ووفدت على قيصر و كسرى والنجاشى والله إن رأيت ملكا قط يعظمه أصحابه ما يعظم أصحاب محمد محمدا والله إن تنخم نخامة إلا وقعت فى كف رجل منهم فدلك بها وجهه و جلده وإذا أمرهم إبتدروا أمره وإذا توضأ كادوا يقتتلون على وضوئه وإذا تكلم خفضوا أصواتهم عنده وما يحدون إليه النظر تعظيما له وأنه قد عرض عليكم خطة رشد فأقبلوها" يعني اے قوم قسم خدا کی میں بادشاہوں کے پاس گیا، قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہ کے پاس بھی گیا، خدا کی قسم میں نے کسی ایک بادشاہ کے ساتھیوں کو ایسی بادشاہ کی تعظیم کرتے نہ دیکھی جیسی عزت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہ آپ کی کرتے ہیں خدا کی قسم وہ اپنے منھ سے کھنکھار شریف نہیں نکالتے ہیں مگر وہ کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ اسے لیکر اپنے چہرے اور چمڑے پر مل لیتا ہے اور جب انھیں کوئی حکم دیتے ہیں تو ان کے حکم کی بجا آوری کے لیے جلدی کرتے ہیں اور جب وضو کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کے وضو کا پانی لینے کے لیے لڑ پڑیں گے اور جب حضور کوئی بات کرتے ہیں تو صحابہ ان کی بارگاہ میں آواز پست کر لیتے ہیں اور ان کی تعظیم کے سبب ان کی جانب نظر نہیں اٹھاتے اور (اے قوم) بیشک انھوں نے ہدایت کی بات پیش کی ہے تو تم لوگ اسے قبول کر لو، (الادب الجمیل ص ٢٢ منقول صحیح البخاری الاول)
علما کرام فرماتے ہیں کہ یہی واقعہ حضرت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایمان کا سبب بنا،
مائکل ہارٹ نے اپنی کتاب "100 Most influential persons in history" یعنی سو عظیم آدمی مترجم عاصم بھٹ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ان الفاظ میں بیان فرمائی"ممکن ہے کہ انتہائی متاثر کن شخصیات کی فہرست میں(حضرت) محمد کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہو اور کچھ معترض بھی ہوں لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کامیاب رہی، (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عاجزانہ طور پر اپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا وہ ایک انتہائی موثر رہنما بھی ثابت ہوئے، آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلم اور گہرے ہیں، (ص 25 سو عظیم آدمی)
اسی کتاب میں پھر آگے لکھتا ہے"عیسی مسیح (علیہ السلام) کے بر عکس(حضرت) محمد نہ صرف ایک کامیاب دنیا دار تھے بلکہ ایک مذہبی رہنما بھی تھے، فی الحقیقت وہی عرب فتوحات کے پس پشت موجود اصل طاقت تھے، اس اعتبار سے وہ تمام انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ متاثر کن سیاسی قائد ثابت ہوئے ہیں"(ص 28)
ہیری ای ہائنکل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتا ہے" اگر ہم مذاہب عالم کے تمام بانیوں کی خوبیوں کا تقابلی مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تصورات و خیالات کی بھول بھلیوں میں گم ہوئے نہ اپنی فضیلت پر تکبر کیا بلکہ انسانوں میں ایک عام انسان کی سی زندگی بسر فرمائی، اپنی تعلیمات پر خود عمل کرکے دکھایا اور اپنے پیرو کاروں میں کردار کے اس معیار پر پورا اترنے کا جزبہ پیدا فرمایا، آپ بظاہر ناخواندہ تھے پھر بھی دنیا کو سب سے بڑی اور عظیم کتاب دے گیے جو سائنس سے متصادم نہیں اور بائبل میں مذکور بے سرو پا اور نفرت انگیز قصے کہانیوں سے بھی پاک ہے۔(اسلام ہی ہمارا انتخاب کیوں)
ایک یورپی اسکالر ای بلائڈن لکھتا ہے"مسلم فتوحات کے نتیجے میں کالے خطہ میں اسلام کی روشنی پھیلی اور تعلیمات محمدی نے انسانوں کو جینے اور سر اٹھانے کا حق بخشا، عیسائیت جہاں بھی گئی وہاں انسانوں کو غلام بنایا اور طاقت اور جارحیت کے ذریعے ان کی حکومت کی گئی، محمد کا دین جہاں پہنچا وہاں حقیقی جمہوری حکومتوں کا قیام معرض وجود میں آیا،
ہندوستان کی ایک سابق سیاسی لیڈر گورنر سرجنی نائڈو نے ایک موقع پر کہا"اسلام پہلا مذہب ہے جس نے جمہوریت کی تلقین کی اور اس پر عمل کیا، اسلام میں حقیقی، خالص جمہوریت پر عمل پایا جاتا ہے جو کسی دوسرے مذہب کی پیدا وار نہیں" (حیات نو کراچی 1965ء)
موسیو گاسٹن کار کا کہنا ہے"اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے جس کو دنیا کی2/3 حصہ آبادی نے حق تسلیم کر لیا ہے اسلام ہی نے دنیا کی عمرانی ترقی کے لئے ہر قسم کے ذرائع یورپ کو پہنچائے ہیں، روئے زمین سے اگر اسلام مٹ گیا، مسلمان نیست و نابود ہو گیے قرآن کی حکومت جاتی رہی تو کیا دنیا میں امن قائم رہے گا؟ ہرگز نہیں"(البلاغ بیروت 1430ھ)
ای بلائڈن لکھتا ہے" سچا اور اصلی اسلام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اس نے طبقہ اناث(خواتین) کو وہ حقوق دئے جو اس سے پہلے اس طبقہ کو انسانی تاریخ میں نصیب ہوئے تھے نہ اس کے بعد، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور اس کی تعلیمات کو کن الفاظ میں سراہا جا سکتا ہے وہ حقیقی انقلاب جو ذہن بدل دے، دل بدل دے اس کی تعریف کیسے ممکن ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی فتوحات کو الفاظ کے پیرایے میں سمونا ناممکن ہے"(Christianity Islam and the Negro race 1969)
بی اسمتھ نے پیغمبر اسلام کے متعلق کہا" کسی مذہبی رہنما اور مذہب کی حقیقت کا اندازہ اس کے نام لیواؤں اور پیروکاروں کے اعمال سے لگایا جاسکتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یروشلم پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، یروشلم میں کسی گھر یا مکان کو نقصان نہیں پہنچا، میدان کارزار کے سوا یروشلم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا گیا، 1099ء میں عیسائیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا اور مسلمانوں کے گھروں اور املاک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، تین روز تک مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی، ستر ہزار مسلمان بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان قتل کئے گئے ان میں دس ہزار وہ تھے جنھیں مسجد عمر میں ہلاک کیا گیا، جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تو وہ ثابت کر رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لیے فضل و رحمت بن کر آئے تھے"(پیغمبر اسلام غیر مسلموں کی نظر میں ص 10)
بر ٹرینڈرسل کہتا ہے"عیسائیت اور اس کے علمبرداروں نے ہمیشہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف باطل(منفی) پروپیگنڈہ جاری رکھا ہے جب کہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم انسان اور فقید المثال مذہبی رہنما تھے، وہ ایک ایسے دین کے بانی تھے جو برد باری، مساوات اور انصاف کی بنیادوں پر کھڑا ہے"(Why I am not a christian)
ایک برطانوی مصنف جے ڈبلیو گراف لکھتا ہے" قرآن وہ کتاب ہے جس کے الہامی ہونے پر بے شمار دلائل موجود ہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) وہ واحد رسول ہیں جن کی زندگی کا کوئی حصہ ہم سے مخفی نہیں، اسلام ایک ایسا فطری اور سادہ مذہب ہے جو اوہام و خرافات سے پاک ہے، قرآن نے اس مذہب کی تعلیم پیش کی اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس پر عمل کرکے دکھایا، قول و عمل کا یہ حسین امتزاج کہیں اور نظر نہیں آتا"(دین و دنیا دہلی مارچ)
بالآخر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف اور دین متین کی تعریف ہر انصاف پسند دانشور نے کی ہے، مشہور مقولہ ہے " الفضل ماشهدت به الأعداء"  یعنی فضل و کمال وہ ہے دشمن بھی جس کی شہادت دے، بانی اسلام کے اخلاق کریمانہ ہی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی لوگ جوق در جوق آغوش اسلام میں پناہ گزیں ہو رہے ہیں، بس قوم مسلم کو ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کا صحیح طور و طریقہ اپنائیں اور پیغمبر اسلام کی زندگی صحیح معنوں میں لوگوں کے سامنے پیش کریں تاکہ لوگ دیکھ کر کہیں کہ جب امتی ایسے ہیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کیسے ہوں گے یاد رہے دارین کی سعادت اطاعتِ محمدی میں ہے۔
کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے