وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
از۔۔مولانا محمد قمرانجم قادری فیضی
چیف ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف
قرآن کریم عہدِ نبوی کا اولین نقش نعت ہے جس میں نعت کے اصول و ضوابط اور طریقۂ کار کی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ نعت کہنے کے لئے بنیاد (Base) کیا ہونی چاہئے اور زبان و اسلوب کیسا اختیار کرنا چاہیئے ۔
علمائے علم و فن کہتے ہیں کہ عربی ادب کی ابتدا بھی دنیا کی دیگر بڑی زبانوں کے ادب کی طرح شاعری ہی سے شروع ہوئی۔ یونانی تہذیب ہو یا مصری حیات۔ ان کی زندگیوں کا بڑا انقلابی حصہ شاعری ہی کی مرہون منت ہے۔ قدیم تواریخ میں بابل و نینوا بھی اسی تہذیب کا حصہ رہے ہیں۔ مزامیر داؤد آج بھی ان کے مذہب کا حصہ ہے۔ مذہبی شاعری ہر تہذیب کا جزو حیات رہی ہے۔
ماقبل و بعد از اسلام، شاعری ہی اہل عرب کا ذریعۂ اظہار تھی بلکہ ان کی اولین زبان تھی، جس کا انہوں نے بھرپور استعمال کیا۔ قبل از اسلام شاعری ان کی مجبوری تھی، لیکن بعد از اسلام وہ ضرورت میں تبدیل ہوگئی، جیسا کہ پروفیسر نکلسن کہتا ہے:
In those day poetry was no luxury for the cultured few but the sole medium of literary expression.
صحابہ کرام مردہ دل اور خشک مزاج ہرگز نہ تھے، بلکہ وہ زندہ رَو تھے اورا پنی مجالس میں اشعار پڑھتے تھے۔ شعر و سخن کی اس محفل کا مقصد، اسلامی ادب کو پروان چڑھانا تھا۔
شعر کی حکمت و عظمت، احادیث نبویہ کی روشنی میں، واضح طور پر ظاہر و باہر ملاحظہ فرمائیں، حضور رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذوق شعری اور آپ کی شعر فہمی پر روشنی ڈالی گئی ہے، گو کہ آپ شاعر نہ تھے، لیکن اعلیٰ ذوق شعری رکھتے تھے۔ رجزیہ اشعار پڑھنا آپ سے ثابت ہے اور اسی سبب آپ نے مسجد نبوی میں حضرت حسان ابن ثابت کے لئے منبر بچھوائے اور نعتیہ اشعار سماعت فرمائے اور انہیں دعائوں سے نوازا۔ آپ نے بہ فرمائش صحابہ کرام سے اشعار سماعت فرمائے۔ آپ نے فرمایا: شعر میں حکمت اور دانائی بھی ہوتی ہے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا: ’’کلمۂ حکمت‘‘ تو مومن کی متاع گم شدہ ہے۔
حضور کی تفہیم شعری بھی اعلیٰ ذوق کی مظہر تھی۔ آپ نے معروف جاہلی شاعر، امرء القیس کے اشعار کو با اعتبار موضوع نا پسندیدہ قرار دیا، لیکن اس کی شاعرانہ عظمت کو ’اشعر الشعراء‘ کا خطاب دے کر اس کے کمالات شعری کا اعتراف فرمایا۔ اسی طرح جب آپ کے سامنے مشہور جاہلی شاعر، عنترہ بن شداد کا شعر پڑھا گیا، تو آپ نے اس سے ملنے اور اسے دیکھنے کا اشتیاق ظاہر فرمایا۔
حضور شعر و ادب پر قدغن نہ لگاتے، بلکہ اس کی ترویج کے لئے صحابہ کرام کی حوصلہ افزائی فرماتے، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: مجھے میرے رب نے تعلیم ادب دی ہے اور پھر یہ کہ میں نے قبیلہ بنی اسد میں پرورش پائی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحلیم لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس سے نکلا ہوا لفظ ’’ادّبنی‘‘ عربی ادب میں پہلی مرتبہ استعمال ہوا ہے، اس سے پہلے یہ لفظ عرب کی تاریخ شعر و ادب میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔
تاریخ ادب عربی کتاب کے باب میں ایک اہم بحث مسجد میں نعتیہ اور جنگی مواقع پر رزمیہ و رزجیہ اشعار کا پڑھنا بھی ہے۔ اس باب کا ایک اور اہم موضوع ’’شعرائے خاندان رسالت کی نعتیہ شاعری‘‘ ہے جس میں مسلم و غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔ اس میں خاندان رسالت کے اڑتیس شعراء و شاعرات کا کلام دیا گیا ہے۔ حضور کے ساتویں نمبر کے دادا حضرت کعب (بن لؤیّ) نے آپ کی بعثت سے پانچ سو ساٹھ سال قبل، آپ کی نعت کہی، گویا نعت کی ابتداء آپ کے خاندان سے ہوئی۔ حضرت کعب، آپ کے اجداد میں اولین فرد ہیں جنہوں نے اپنی نعت میں، آپ کا اسم گرامی ’’محمد‘‘ پہلی مرتبہ استعمال کیا اور آپ کے چودھویں نمبر کے دادا، حضرت کنانہ (بن خزیمہ) پہلے شخص ہیں، جنہوں نے اپنی نعت میں سب سے پہلے آپ کا اسم گرامی ’’احمد‘‘ استعمال کیا۔ یہ زمانہ ما قبل از اسلام و ولادت و بعثت کا ہے۔ آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب پہلے شخص ہیں جنہوں نے آپ کی ولادت کے بعد سب سے پہلے اپنی نعت میں آپ کے اسم گرامی ’’محمد‘‘ کا استعمال کیا۔
عورتوں میں سب سے پہلی نعت آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے اور مردوں میں سب سے پہلی نعت آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کہی، علاوہ ازیں آپ کے چچا، چچا زاد بھائی، آپ کی دادیاں، چچیاں، پھوپھیاں بھی بہترین شاعر و شاعرات تھیں۔ ان کا نعتیہ کلام بھی دیا گیا ہے ،جب کہ آپ کی ازواج مطہرات اور آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ بھی عمدہ شاعرات تھیں،
حضور کے خاندان کے میں، آپ کے چچا ابو طالب اور آپ کے چچا زاد بھائی، حضرت علی بن ابی طالب، دونوں صاحب دیوان شاعر ہیں جو کہ طبع شدہ ہیں ۔دیوان ابو طالب اور دیوان علی عربوں ہی میں نہیں بلکہ عجم میں بھی معروف ہے اور پاک و ہند میں ان کے تراجم بھی ہوچکے ہیں ۔یہ اعزاز خاندان بنو ہاشم (قبیلہ قریش) کے سوا کسی اور خاندان عرب یا قبیلہ کو حاصل نہیں کہ باپ، بیٹے دونوں صاحب دیوان شاعر ہوئے ہوں۔
آپ کا خاندان فن شعر و ادب سے مالا مال تھا۔ عربی زبان و ادب و مراثی و قصائد بالخصوص نعتیہ ادب کی ترویج و اشاعت اور نعت گوئی کی شروعات بعد از ولادت آپ کے خاندان سے ہوئی۔
مرثیہ، قصیدہ اور عربی شاعری کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر یہ دو چیزیں عربی شاعری سے خارج کردی جائیں تو پیچھے کچھ نہیں بچتا، ادب رہ جائے گا، ادبیت ختم ہوجائے گی۔ عربی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی اسی میں ہے۔ نعتیہ ادب میں یہ اضافہ میراث، مال متروکہ کے طور پر شامل ہوئیں اور نعتیہ ادب کا دامن بھر گئیں۔ نبی کریم علیہ السلام کے وصال پر کہے گئے مراثی، اس کی اعلیٰ مثال ہیں۔ حضور کے دادا عبدالمطلب عرب ہی نہیں بلکہ اس دنیا کے اولین فرد تھے جنہوں نے اپنی زندگی ہی میں اپنی چھ بیٹیوں سے اپنا مرثیہ کہلوا کر سنا اور پھر اپنے مرنے کے بعد ان مراثی کو اس طرح پڑھنے کا حکم دیا جس طرز پر انہیں سنایا گیا تھا۔ یہ بھی ایک تاریخی ریکارڈ اور عربی ادب کی حقیقت اور فن شاعری میں سند ہے کہ کسی شخص پر اس کی چھ بیٹیوں، یعنی حضور کی چھ پھوپھیوں نے ،الگ الگ ردائف و قوافی پر مشتمل، اپنے والد یعنی حضور کے دادا پر بیک وقت چھ مرثیے پڑھے۔
مرثیہ عربی ادب کا خاصّہ ہے، بعینہٖ اسی طرح، جیسے رجزیہ اشعار، میدان کارزار (جنگ) کا شعار ہیں اور حدی خوانی ،بدوی زندگی کی علامت ہے ۔صحابہ کرام و صحابیات نے حضور کے نہایت خوب صورت، زبان و بیان سے پُر نعتیہ مراثی رقم کئے۔ نعتیہ مراثی نعتیہ ادب کا ایک اہم جز ہیں۔
حضرت حسان ابن ثابت عہد اسلام، عہد نبوی کے سب سے بڑے نعت گو شاعر، نعتیہ ہجو اور نعتیہ مراثی کے بانی شاعر، سب سے بڑے مرثیہ گو اور نعتیہ ادب میں شاہ کار مراثی تخلیق کرنے والے فرد ہیں۔ آپ نے حضور کی وفات پر چار مراثی میں بیاسی اشعار کہے۔ پہلا مرثیہ اڑتالیس اشعار پر مشتمل ہے۔ اس باب میں خواتین کے نعتیہ مراثی بھی شامل ہیں۔ آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ اور آپ کی
صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمہ کے مراثی عربی نعتیہ ادب کا شاہ کار ہیں۔
اسی قدیم روایت و وراثت کو آگے بڑھاتے ہوئے
حضور سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک نام 'محمد' صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مناسبت سے 92/ کلام پر مشتمل حسین و جمیل گلدستہ "سخن زار نعوت" ًخانقاہ ظہوریہ چشتیہ قادریہ بلگرام شریف ضلع ہردوئی کے چشم و چراغ ادیب شہیر محب مکرم حضرت مولانا شمس تبریز خاکی ظہوری مرکزی کا پہلا اُردو نعتیہ مجموعہ زیر مطالعہ ہے ۔ جس میں حضرت خاکی صاحب نے نعت پاک مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر خوب خامہ فرسائی کی ہے ’ ’سخن زار نعوت ‘ ‘ 164/صفحات پر مشتمل مجلد خوب صورت، پیج ٹائٹل دیدہ زیب، بیک ورق پر ملک الشعراء حضرت میرزا امجد رازی ریسرچ آفیسر محی الدین اسلامک یونیورسٹی آزاد کشمیر جیسے نعت آشنا شخصیت کے قلم سے 'بہلول سخن 'کے عنوان سے تخلیق اور تخلیقی صفت سے متصف خدوخال پر زبردست خامہ فرسائی موجود ہے۔ ابتدائی صفحات میں قطع تاریخ اشاعت سخن زار نعوت پر معلم الشعراء حضرت صاحبزادہ محمد نجم الامین عروس فاروقی صاحب قبلہ پاکستان کی جانب سے قطعات پیش کئے گئے ہیں ،فاروقی صاحب قبلہ کے 'قطع تاریخ اشاعت' اکثر وبیشتر قدیم وجدید لکھاریوں کی تخلیقات پر دیکھنے ،پڑھنے کو ملتے ہیں۔
حضرت خاکی صاحب نے اس کتاب کو
حضور تاج الشریعہ علامہ اختررضا خان ، خلیفہ حضرت سید نصیرالدین دادا جان حضرت مخدوم ظہورالدین شاہ المعروف چھوٹے میاں بلگرامی علیہم الرحمہ، نیز جملہ مخلص اساتذہ کرام ،ساتھ ہی ساتھ والدین کریمین کے نام منسوب کیاہے ۔
صفحہ 13 سے لے کر 52/ صفحات میں 2/ دعائیہ کلمات و قلبی تاثرات استاذالشعراء حضرت سید اولاد رسول قدسی مصباحی نیویارک امریکہ، والد محترم شہزادہ ظہورالدین حضرت نفیس میاں ظہوری صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ ، کے شامل ہیں ۔تقریظ جلیل ماہر علوم وفنون حضرت علامہ مفتی محمد فیصل رضا صالح مرکزی استاذ جامعۃ الرضا بریلی شریف، جب کہ اس کتاب کی تقدیم معلم الشعراء حضرت سید خادم رسول عینی قدسی ارشدی چیف منیجر یونین بینک آف انڈیا نے فرمائی ہے ۔ اس کے علاوہ تاثرات کے کالم میں مزید 07/ تاثرات بر سخن زار نعوت' شامل ہیں ۔۔ جن میں جہان نعت کے جید علماء کرام غواص بحر نعوت ، محقق، دقیق، شخصیات شامل ہیں جنھیں اس میدان میں باریک بینی، اشعار شناسی میں ید طولی حاصل ہے ۔ نام ور اہل قلم اور نکتہ داں کے سامنے بندۂ ناچیز کی بات کچھ معنی نہیں رکھتی ۔ مگر۔۔۔۔۔
’نعت‘ اصطلاحاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منظوم توصیف بیان کرنا ہے۔ اگر نعت کو اپنے لغوی معنوں ’تذکرہ ٔصفات‘ کے حوالے سے دیکھا جائے تو اللہ ربّ العزت نے نعت کا اہتمام اپنے محبوب کے لئے نام پسند کرتے ہوئے ہی کرلیا تھا۔’’محمد‘‘۔ اس چار حرفی غیر منقوط پرُ تاثیر لفظ کے معنی ہی’’بہت تعریف کیا گیا‘‘ کے ہیں۔ لفظ ’’محمد‘ کا مادہ’حمد‘ سے ہے اور یہ خود میں ایک مکمل نعت ہے۔ یعنی وہ ہستی جس کی بہت تعریف کی گئی ہو۔’’وَ رَفعنا لَک ذِکرک‘‘ کی آب یاری سے اس ذکر کومزید پھیلا دیا گیا۔
صنف ِنعت کی دو شاخیں ہیں۔ ایک نعت گوئی اور دوسرا نعت خوانی۔ ’’نعت‘ کی دونوں شاخوں میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و فضائل، سیرت و پیغام اور تذکار کے ذریعے قارئین و سامعین کی پیاسی روحوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔نعت گوئی ایک مذہبی فریضہ بھی ہے اور اس حیثیت سے اس کے تقاضے کمالِ احتیاط پر مشتمل ہیں۔’
مشہور محقق و ناقد ڈاکٹر ابرار عبدالسلام صاحب اپنی کتاب نعتیہ ادب مسائل و مباحث میں تحریر کرتے ہیں کہ
نعت کہنے سے پہلے آدابِ نعت سے واقفیت ضرور حاصل کرے کیوں کہ یہ صرف شعر کہنے والی بات نہیں ، یہ تو محبوب ربِِّ جلیل کی بارگاہ میں باریابی پانے کی جستجو کا مرحلہ ہے محبتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے میزان پر ایمان تولنے کا معاملہ ہے ایمان و عقیدت کے قبلہ و کعبہ کی طرف جان و دل کرنے کا سلسلہ ہے قطرے کو گُہر کرنے ، ذرّے کو رشکِ آفتاب کرنے کا وَلوَلہ ہے اور کیوں نہ ہو ، نعت گوئی میرے معبودِ کریم جل جلالہ کی سنّت ہے ، یہ وہ وصف و سعادت ہے جو مشتِ خاک کو قربِ ایزدی عطا کرتی ہے روایت ہے کہ سجدے میں بندہ اپنے ربِّ کریم جل جلالہ کے بہت قریب ہوتا ہے ، اسے بہت پیارا لگتا ہے ، شاید یہ وجہ بھی ہو کہ سجدے میں بندے کا جسم ربِّ کریم جل جلالہ کے محبوبِ کریم کے مبارک نام ’ محمد ‘ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مکتوبی ساخت کا نقشِ جمیل بن جاتا ہے - (کوکب نورانی ص،۳؍۱۱۱)بعض نعت گو حضرات غلو، اغراق اور مبالغے سے اس قدر کام لیتے ہیں کہ مدحت ِرسول اللہ میں اللہ جل جلالہٗ کے اَوصاف بھی شامل کر دیتے ہیں۔
صاحب کتاب کی بات کریں تو حضرت خاکی صاحب بیک وقت شاعر،ادیب خطیب اور بلند پایہ قلمکار ہیں،آپ کی پہلی تخیلق اُردو نعتیہ مجموعہ’’سخن زار نعوت‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ۔
’’سخن زار نعوت‘‘کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت خاکی بلگرامی صاحب کی نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مد ح سرائی میں منظم کر دہ نعتیہ مجموعہ بھرے مہکتے پھول اور قصائد جن کو آپ نے اپنی کتاب میں سمویا پِرویا ہے ، بے نظیر و بے مثال ہے اور عاشقا نِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کیلئے لاجواب ا ور لازوال گراں قدر عظیم خزانہ اور سرمایہ ہے ۔چونکہ اربابِ اہل فن کے نزدیک کلام وہی سب سے اعلیٰ اور عمدہ ہوتا ہے جس میں جذبات ، احساسات سچے ہوں ، سو محترم خاکی صاحب قبلہ کے کلام کی یہی امتیازی شان ہے جس کی مثال گویا اس بہار اور شبنم کی سی ہے جو پھولوں اور اُن کی کلیوں کی نکہت ،
تر و تازگی اور حسن و جمال میں مزید اضافہ کر دیتی ہے‘
معلم الشعرا حضرت سید خادم رسول عینی قدوسی ارشدی صاحب قبلہ
چیف منیجر یونین بینک آف انڈیا ،اظہار مسرت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
شمس تبریز خاکی ایک سچے عاشق رسول ہیں ۔ہر عاشق کی یہ دیرینہ خواہش رہتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کے دیار کی زیارت کرے ۔عاشق کو اپنے محبوب کے دیار سے بے حد محبت رہتی ہے ۔اس لئے خاکی بلگرامی صاحب نے اپنے کئی اشعار میں اپنے رب سے مدینے کی زیارت کے لئے دعا کی ہے۔
مثال:
پہنچ کر شہر طیبہ میں دل حسرت زدہ میرا
وہاں سے پھر کرے رحلت نمی دانم نمی دانم
دکھائے خدا ایسا دن مجھ کو خاکی
کروں اپنا سب کچھ نثار مدینہ
اسی ایک امید پر جی رہا ہوں
میں دیکھوں گا اک دن مزار مدینہ
سکوں ملتا ہے تاجدار مدینہ
نظر آتا ہے سب دیار مدینہ
(سخن زار نعوت ص25)
حضرت خاکی بلگرامی ایک زود گو اور خوب گو شاعر ہیں ۔ان کی زود گوئی اور خوب گوئی کا میں نے بذات خود مشاہدہ کیا ہے مختلف بزموں میں ۔طرحی مصرع کتنا ہی سخت کیوں نہ دیا گیا ہو وہ اتنی قابلیت رکھتے ہیں کہ آدھا ایک گھنٹے کے اندر مکمل کلام بزم میں پوسٹ کردیتے ہیں ۔ حضرت شمس تبریز خاکی کے نعتیہ کلاموں میں مدحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے اور مدح محبوبان نبی بھی ، رد دشمنان اسلام بھی ہے اور اصلاحی پیغام بھی، آپ کے اشعار میں فصاحت بھی ہے اور بلاغت بھی، مضمون آفرینی بھی ہے اور معنویت کی فراوانی بھی، خوب صورت ترکیب الفاظ بھی ہے اور صنعت بلاغت بھی، تشبیہات و استعارات کی جلوہ گری بھی ہے اور علامات کی موجودگی بھی۔
(سخن زار نعوت ص30)
حضرت خاکی بلگرامی کی تخلیقی و فنی صلاحیتوں، اور اسلوب نگارش کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے امیرالشعراء حضرت میرزا امجد رازی رقمطراز ہیں
خاکیٓ ایک ایسا ہی تخلیق نگار ہے
جس نے ایسے کئی مجسمے تخلیق کئے ہیں کہ ان کی قوتِ معانی و وسعتِ لطائف کسی بھی درجے کے صاحبِ ذوق کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی ، جہاں مجسمے اپنے حسنِ ظاہر کی دلآویزیوں کو ظاہر کر رہے ہیں وہاں ان میں موجود روحیں اپنے لطائف و دقائق کی ندرتوں سے عقلوں کو حیرتیں بخش رہی ہیں ، خاکیٓ کے ادراک و وجدان کی زمین بہت زرخیز ہے ، مٹی میں قدسی خوشبوئیں اور زرقائے توفیق کا پانی موجود ہے
میں خاکیٓ کے آنے والے اس مجموعۂ نعت کا تہِ دل سے خیر مقدم کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ خاکیٓ خاک سے یوں ہی قصورِ جناں کے نقشوں کو ترتیب دیتے رہیں گے۔
[سخن زار نعوت /ص21]
ان عبارات و مضمون کے اقتباسات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے حضرت خاکی صاحب قبلہ ایک بہترین تخلیق کار، فنی قلمی صلاحیتوں کے مالک زود نعت گو شاعر ، نیز بہترین قلمکار بھی ہیں۔
نوٹ :- 'سخن زار نعوت' کو صراط پبلیکشن نے شائع کیا ہے ۔ اس کتاب کو حضرت خاکی صاحب قبلہ سے بذریعہ ڈاک حاصل کرسکتے ہیں۔ برائے رابطہ
0 تبصرے