قتل ناحق قرآن و حدیث کی روشنی میں

*قتل ناحق قرآن و حدیث کی روشنی میں*

از: مولانا حسنین رضا علیمی جامعی


الحمد للہ الذی کرم الانسان والصلوۃ والسلام علیٰ من ارسل الینا ان یرفع الظلم و الجہل عن الانس و الجان 
بعدہ
          اٹھارہ ہزار عالم میں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے زیادہ بزرگی و شرافت سے نوازا ہے ۔ بلا تفریق مذہب و ملت من حیث الانسان بنی آدم کا ہر فرد اپنے اندر شرافت و بزرگی رکھتا ہے اور اس پر قرآن کی متعدد آیات دال ہیں کہیں " ولقد كرمنا بنى آدم" تو کسی مقام پر " لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم" کے ذریعہ  اس کی عظمت و بزرگی کا اعلان کیا گیا ہے اس لیے مکمل طور سے اس سے متعلق ہر شئی کی حرمت کا پاس و لحاظ ضروری ہے ۔ قارئین کرام ذرا غور کریں کہ جس اسلام نے اولاد آدم کو یہ قدر و منزلت عطا کی ہے وہ بھلا کسی جان کو ناحق قتل کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ قتل ناحق
( دہشتگردی) کو اسلام سے جوڑنے کی جسارت کرتے ہیں حالاں کہ اسلام ان کے قول کے برعکس نسل انسانی کی تحفظ و بقا کا ضامن ہے قتل ناحق کے بارے میں جس قدر سخت تاکید ملت بیضا نے دیا ہے شاید ہی کسی اور قوم میں آپ کو اس کی  مثال نظر آئے۔ قرآن و حدیث میں اس پر بے شمار آیات و روایات وارد ہیں ۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  
 (١) " لا تقتلوا النفس  التى حرم الله إلا بالحق ومن قتل مظلوماً فقد جعلنا لوليه سلطاناً فلا يسرف فى القتل إنه كان منصورا "
ترجمہ : اور کوئی جان جس کی حرمت اللہ نے رکھی ہو ناحق نہ مارو اور جو ناحق مارا جائے تو بے شک ہم نے اس کے وارث کو قابو دیا تو وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے اور ضرور اس کی مدد ہونی ہے_  ( سورۃ الاسراء:  آیت: ٣٣) 
اس آیت کریمہ میں کوئی تقیید نہیں ہے یہ مطلق ہے یعنی کسی بھی جان کو ناحق قتل نہ کرو خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو ساتھ ہی مقتول کے ولی کو حد سے تجاوز کرنے سے روکا گیا ہے اس کے تحت علامہ غلام رسول سعیدی صاحب نوراللہ مرقدہ لکھتے ہیں مقتول کے ولی کا حد سے تجاوز نہ کرنے کا یہ مطلب ہے کہ صرف قاتل کو قتل کرے غیر قاتل کو قتل نہ کرے جیسا کہ زمانئہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا کہ قاتل کے پورے خاندان سے جنگ چھیڑ دی جاتی تھی اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ قاتل کو صرف قتل کیا جائے اور اس کو مثلہ نہ کیا جائے- ( تبیان القرآن تحت ہذہ الآیۃ)
ذرا اسلام کی خوبصورتی  ملاحظہ ہو کسی جان کو ناحق قتل کیا تو اس کا بدلہ قصاص ہے اور قصاص میں بھی قتل ناحق کا لحاظ رکھا گیا ہے یہ کہہ کر کہ قتل میں حد سے آگے نہ بڑھو یعنی سوائے قاتل کے اس کے دیگر لواحقین کو قتل نہ کرو کیوں کہ اسلام سزا صرف مجرم کو دیتا ہے مجرم کی اہل و عیال کو نہیں-
(٢) "من اجل ذالك كتبنا على بنى إسرائيل أنه قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الأرض فكانما قتل الناس جميعا و من أحياها فكانما احيا الناس جميعا" 
ترجمہ: اس سبب سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کیا بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جلا لیا گویا اس نے سب لوگوں کو جلا لیا- ( سورۃ المائدہ آیت: ٣٢)
    آیت مذکورہ میں خطاب اگر چہ بنی اسرائیل کو ہے لیکن یہ بالعموم سب کو شامل ہے ۔ ہماری شریعت میں بھی یہ قانون باقی ہے یعنی کسی نے خون ناحق کیا تو اس کا بدلہ اسی انداز میں لیا جائے گا مثلاً ہاتھ کے بدلے ہاتھ ناک کے بدلے ناک اور دانت کے بدلے دانت کا قصاص ادا کرنا ہوگا اس آیت کریمہ کے تحت علامہ طبری نے لکھا ہے:  " من قتل نفسا واحداً حرمتها فهو مثل من قتل الناس جميعا ( ومن أحياها) من ترك قتل نفس وأحد حرمتها مخافتى و استحياها وهو مثل استحيا الناس جميعا" ( تفسير الطبري: ج: ١٠ ، ص: ٢٣٣)
يعنى جس نے میری حرام کردہ جانوں میں سے کسی ایک کو بھی قتل کیا تو گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جو کوئی میرے ڈر سے کسی کی جان لینے سے باز رہا گویا اس نے پوری انسانیت کو زندہ چھوڑ دیا ۔ اسلام میں اس طرح قتل ناحق کا کوئی تصور نہیں اگر دانستہ طور پر کسی کی جان لی گئی تو اس کے بدلے قاتل پر قصاص واجب ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے " (٢)  يايها الذين آمنوا كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر والعبد بالعبد والانثى والانثى فمن عفي له من اخيه شئ فاتباع بالمعروف و أداء إليه بإحسان ذٰلك تخفيف من ربكم و رحمة فمن اعتدى بعد ذٰلك فله عذاب اليم" 
ترجمہ : اے ایمان والوں تم پر قصاص واجب کر دیا گیا ہے مقتولین کے خون (ناحق) کا تو آزاد کے بدلے آزاد غلام کے بدلے غلام عورت کے بدلے عورت سو جس ( قاتل) کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے معافی ہو تو  دستور کے مطابق اس کا ( دیت کا ) مطالبہ کیا جائے گا اور نیکی کے ساتھ اس کی ادائیگی کی جائے  یہ حکم تمہارے رب کی طرف سے تخفیف و رحمت ہے پھر اس کے بعد جو حد سے تجاوز کرے تو اس کے لئے درد ناک عذاب ہے- (البقرہ آیۃ:  ١٧٨) 
یہ وہ آیات مقدسہ ہیں جو مطلق انسان کے قتل کے بارے میں ہیں جس میں ہر مظلوم کے خون ناحق کی وعیدیں سنائی گئی ہے اور عذاب سے ڈرایا گیا ہے ۔ اور قصاص میں بھی اعتدال پسندی ہی کو اپنانے کا حکم ہے- 
(٤) "ومن يقتل مؤمنا متعمداً فجزاءه جهنم خالداً فيها و غضب الله عليه و لعنه و اعد له عذابا عظيما" 
ترجمہ: اور جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور تیار رکھا اس کے لئے دردناک عذاب ( النساء آية: ٩٣)
    علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں :" ان رجلاً من الأنصار قتل اخا مقيس بن صبابة فأعطاه النبي صلى الله عليه وآله وسلم الدية فقبلها ثم وثب على قاتل أخيه فقتله فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم لا اؤمنه في حل ولا حرم فقتل يوم الفتح.  قال ابن جريح فيه نزلت هذه الآية" ( لباب النقول فى اسباب النزول ص: ٨٦)
علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی  بھی اس کے شان نزول میں فرماتے ہیں یہ آیت مقیس بن صبابہ کے حق میں نازل ہوئی کہ مقیس بن صبابہ کا بھائی قبیلۂ بنو نجار میں مقتول پایا گیا  اور قاتل معلوم نہ تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی دیت دلا دی اس کے بعد مقیس نے باغوائے شیطان ایک مسلمان کو بے خبری میں قتل کردیا اور دیت کے اونٹ لے کر مکہ چلا گیا پھر یوم الفتح کو قتل کر دیا گیا یہ پہلا شخص تھا جو اسلام میں مرتد ہوا (خزائن العرفان تحت ہذہ الآیۃ)
تفسیر قرطبی میں ہے " المتعمد کل من قتل بحدیدۃ کان القتل او بحجر او بعصا او بغیر ذالک و ھذا قول الجمہور ( تفسیر قرطبی : ج: ٥،  ص: ٢٨٢)    
یعنی خواہ قتل کسی دھاردار آلے ، تلوار ، نیزہ ، تیر اور ہمارے زمانے میں نئی ایجادات بندوق وغیرہ یا عصا اور پتھر سے بھی ہو یہ قتل عمد شمار ہوگا اور یہی جمہور کا مذہب ہے اس پر قصاص واجب ہے کسی انسان کا ناحق قتل اکبر الکبائر میں سے ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے "عن انس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم اكبر الكبائر الاشراك بالله و قتل النفس و عقوق الوالدين و قول الزور او قال شهادة الزور" (صحیح البخاری کتاب الدیات رقم الحدیث: ٦٨٧١)
ترجمہ: حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑے گناہ یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ، کسی کا ناحق قتل کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا ، جھوٹ بولنا ( بشک راوی) یا جھوٹی گواہی دینا- 
حدیث مذکورہ میں شرک باللہ سے متصلا قتل ناحق کے ذکر سے یہ بات بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ کسی کی جان لینا کس قدر بڑا گناہ ہے ۔ ایک اور مقام پر حدیث شریف ہے:" ان من ورطات الأمور التي لا مخرج لمن أوقع نفسه فيها سفك الدم الحرام بغير حله" ( صحيح البخاري كتاب الديات رقم الحديث: ٦٨٦٣) 
ترجمہ: ہلاکت کا ایسا بھنور جس میں گرنے کے بعد نکلنے کی ساری امیدیں ختم ہو جاتی ہیں وہ کسی کا ناحق خون کرنا ہے جس کو اللہ نے حرام فرمایا ہے ۔
خون ناحق اتنا بڑا جرم ہے کہ کل بروز حشر معاملات انسانی میں جس چیز کا سب سے پہلے فیصلہ ہوگا وہ ناحق خون ہے حدیث کی عبارت کچھ اس طرح ہے: " اول ما يقضي بين الناس یوم القيامة في الدماء" ( ترمذي ، ابن ماجه و بخاري كتاب الديات) 
قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کا فیصلہ کیا جائے گا ۔
قتل ناحق اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے بعد مغفرت کا دروازہ بہت تنگ ہوجاتا ہے حدیث شریف میں ہے:"قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لن يزال المومن في فسحة من دينه مالم يصب دما حراماً" ( بخاري رقم الحديث: ٦٨٦٢) 
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں کشادہ رہتا ہے یعنی اس کے لئے مغفرت کی امید باقی رہتی ہے جب تک وہ ناحق خون کا مرتکب نہ ہو جہاں خون ناحق کیا تو مغفرت کا دروازہ بہت تنگ ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح 
اللہ رب العزت کو کسی مومن کے قتل کے مقابل دنیا کا تباہ ہونا ہلکا ہے عبارت حدیث کچھ یوں ہے: "ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال لزوال الدنيا اهون على الله من قتل مومن بغير حق ( ابن ماجه كتاب الديات رقم الحديث:  ٢٦١٩) 
ترجمہ : حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے کے مقابل دنیا کا تباہ ہو جانا اللہ کے نزدیک ہلکا ہے ۔
محترم قارئین ذرا غور کریں کہ قرآن و حدیث کی ان مذکورہ آیات و آثار میں کسی بھی جگہ قتل ناحق کی اجازت نہیں ہے ۔ کوئی بھی جان خواہ مسلمان ہو یا کافر ذمی ہو یا حربی اس کا قتل گناہ کبیرہ ہے ۔ آج کے اس دور میں جب کہ دہشت گردی اور خون ناحق کی ارزانی کو اسلام سے جوڑ دیا گیا ہے ان کے لئے یہ چند باتیں شاید مبرہن دلیل ثابت ہو سکیں کہ اسلام میں کسی بھی صورت قتل ناحق کا تصور نہیں ہے لیکن جو ماحول اس زمانے میں اسلام کے خلاف بنا دیا گیا ہے چاہے یورپ ہو یا امریکہ ایشیا ہو یا افریقہ ہر جگہ اسلام اور مسلمانوں کو نشانے پر رکھا ہوا ہے ہر ذی علم کی ذمہ داری ہے کہ اسلام پر لگنے والے دہشتگردی کے الزام کو اپنی تقریر و تحریر سے اس دین حنیف کا دفاع کرے ۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے اور اسلاموفوبیا کے شکار افراد کے شر سے اہل اسلام کی حفاظت فرمائے ۔
آمین بجاہ سید المرسلین

از: حسنین رضا قادری علیمی جامعی گونڈوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے