عوام میں پھیلی مشہور غلط فہمیوں کا ازالہ

عوام الناس میں پھیلی مشہور غلط فہمیوں کا ازالہ

از: مفتی عبد اللطیف علیمی رضوی


سوال: فرضی قبر یا مزار بنانا اس کا عرس کرنا اور اس پر گاگر چادر چڑھانا کیسا ہے؟
جواب: آج کل اکثر دیکھا جاتا ہے کہ پہلے وہاں کچھ نہیں ہوتا ہے اور بعد میں بغیر کسی مردے کو دفن کیے قبر یا مزار بنا دیا جاتا ہے پوچھنے پر کہتے ہیں کہ خواب میں فلاں میاں نے بتایا ہے کہ یہ ہمارا مدفن ہے اس لئے یہاں ہمارا مزار بناؤ لیکن حقیقت میں وہاں کچھ نہیں ہوتا ایسے ہی کچھ لوگ کسی درخت کے پاس کوئی بیمار ہو جائے یا کوئی حادثہ ہو جائے تو سمجھتے ہیں یہاں کسی بزرگ کی قبر ہے اس لیے یہاں مزار بنا دینا چاہیے یہ لوگوں کی جہالت و نادانی اور کم علمی ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح قبر و مزار بنانا ان پر حاضری دینا فاتحہ پڑھنا عرس کرنا گاگر چادر چڑھانا سب حرام ہے۔ اس طرح سے مسلمانوں کو دھوکہ دینا اور مذہب اسلام کو بدنام کرنا ہے۔ خواب میں مزار بنانے کی بشارت یا پیغام کو درست ماننا عند الشرع کوئی چیز نہیں جن لوگوں نے ایسے مزار بنائے یا جن جگہوں پر ایسے مزارات بنا دیے گئے وہاں پر لوگوں کو آنے جانے سے روکنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت ہو سکے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی بات خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہو سکتی۔ قبر بلا مقبور کی زیارت کی طرف بلانا اور اس کے لیے وہ افعال کرانا گناہ ہے" ملخصاً (فتاویٰ رضویہ، ج: ٤، ص: ١١٥، رضا اکیڈمی ممبئی)

سوال: کیا امام کے لئے مقتدیوں کی نیت ضروری ہے؟
جواب: کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر امام امامت کی نیت نہیں کرے گا تو مقتدیوں کی نماز نہیں ہوگی یہ ان لوگوں کی غلط فہمی و کم علمی ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ امام کو امامت کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ امام بھی وہی نیت کرے گا جو منفرد کرتا ہے البتہ بہترہے کہ امام امامت کی نیت بھی کرلے تاکہ جماعت کا ثواب پا جائے پھر اگر امام نے امامت کی نیت نہیں کی تو جماعت کا ثواب نہیں پائے گا البتہ نماز ہو جائے گی جبکہ اس کے علاوہ کوئی مفسد نماز نہ پائی جائے۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "امام کو نیت امامت مقتدی کی نماز صحیح ہونے کے لئے ضروری نہیں یہاں تک کہ اگر امام نے یہ قصد کر لیا کہ میں فلاں کا امام نہیں ہوں اور اس نے اس کی اقتدا کی نماز ہوگئی مگرامام نے امامت کی نیت نہ کی تو ثواب جماعت نہ پائے گا" (بہار شریعت، ج: ١، ح: ٣، ص: ٥٥، قادری کتاب گھر بریلی شریف)

سوال: جفت یعنی جوڑ سال میں رخصتی کرنا کیسا؟
جواب: عوام میں یہ رواج بہت عام ہے کی اپنی لڑکی کا نکاح یا اس کی رخصتی تین یا پانچ یا سات سال میں کرتے ہیں جفت سال میں نہیں کرتے، جفت سال یعنی دو یا چار یا چھ سال میں نکاح یا رخصتی کرنے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کی غلط فہمی و جہالت اور ہندوانی خیالات ہیں، نکاح و رخصتی ہر دن ہر تاریخ میں ہر سال جائز ہے جفت سال میں نکاح کرنے کو بد فالی و بدشگونی خیال کرنا غیر مسلموں کی سی وہم پرستیاں ہیں جو اب مسلمانوں میں رائج ہوگئی ہیں مذہب اسلام میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس طرح کے باطل اور جاہلانہ خیالات کو ذہن میں نہ لائیں اور شریعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق زندگی گزاریں۔
فتاویٰ بحر العلوم میں ہے: 
"دنوں میں کوئی دن اور اوقات میں کوئی وقت اور گھڑی منحوس اور نا مبارک نہیں ہے سب دن اللہ تعالی کے ہیں تو کسی دن کی نحوست کا اعتقاد کرنا غیر اسلامی ہے" (فتاویٰ بحر العلوم، ج : ٤، ص: ١٤١، امام احمد رضا اکیڈمی)

سوال: نکاح کے بعد منہ دکھائی کی رسم کا کیا حکم ہے؟
جواب: آج کل یہ رسم بھی بہت عام ہو گئی ہے کہ دلہن کے سسرال آنے کے بعد غیر محرم عورت کا چہرہ دیکھتے ہیں ہنسی مذاق کرتے ہیں پھر اس کے بعد ہدیہ تحفہ دیتے ہیں یہ رسم بالکل ناجائز اور خلاف شرع ہے اس لیے کہ غیر محرم مردوں سے جس طرح سے نکاح سے پہلے عورت کا پردہ کرنا واجب و ضروری تھا اسی طرح شادی کے بعد بھی ضروری ہے لہذا اس رسم و رواج سے بچنا واجب ہے۔
 اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "عورت اور مرد کے مذاق کا رشتہ شریعت نے کوئی نہیں رکھا یہ شیطانی و ہندوانی رسم ہے"(فتاویٰ رضویہ، ج، ٩، نصف آخر، ص: ١٧٠، رضا اکیڈمی ممبئی) 
دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں: "شوہر کے سوا کوئی مرد ہو اسے دکھانا حرام قطعی سخت گناہ شدیدہ ہے" (ایضاً، ص: ٢١٧)

سوال: کیا طلاق کے لیے عورت کا سننا ضروری ہے؟
جواب: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ شوہر اگر اپنی بیوی کو طلاق دے تو عورت کے لیے الفاظ طلاق سننا یا سامنے ہونا ضروری ہے ورنہ طلاق نہ ہوگی یہ لوگوں کی غلط فہمی و کم علمی ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ عورت اگر چہ الفاظ طلاق نہ سنے اور وہاں موجود نہ ہو پھر بھی طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ شوہر اپنی زبان سے الفاظ اطلاق اتنی آواز سے کہے جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل ہوں چاہے میاں بیوی کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ ہو۔ ایسے ہی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو فون پر طلاق دے تب بھی طلاق واقع ہو جائے گی۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:طلاق کے لیے زوجہ خواہ کسی دوسرے کا سننا ضروری نہیں جبکہ شوہر نے اپنی زبان سے الفاظ طلاق ایسی آواز سے کہے جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل تھے" (فتاویٰ رضویہ، ج: ٥، ص: ٦١٩ رضا اکیڈمی ممبئی)
اسی میں ہے: "طلاق کے لیے عورت کا وہاں حاضر ہونا کچھ شرط نہیں" (ایضاً ص: ٦١٨،)

سوال: مرتے وقت عورت سے مہر معاف کروانا کیسا ہے؟
جواب: یہ مسئلہ بھی عوام میں بہت مشہور ہے کہ جب عورت مرنے لگتی ہے تب اس سے مہر معاف کرواتے ہیں یہ طریقہ درست نہیں ہے اس لیے کہ مرتے وقت عورت اگر چہ مہر معاف کردے لیکن اس کے وارثین کی اجازت کے بغیر مہر معاف نہ ہوگا۔ ہاں اس صورت میں معاف ہو سکتا ہے کہ صحیح و سالم ہوش و حواس کی درستگی میں ہو کوئی زور و زبردستی نہ ہو تو معاف کر سکتی ہے لیکن پھر بھی مہر معاف نہیں کروانا چاہیے دے دینا چاہیے کہ یہ عورت کا حق ہوتا ہے۔
فتاویٰ فیض الرسول میں ہے:"عورت اگر ہوش و حواس کی درستگی میں راضی و خوشی سے مہر معاف کردے تو معاف ہو جائے گا۔ ہاں اگر مارنے کی دھمکی دے کر معاف کرایا اور عورت نے مارنے کے خوف سے معاف کر دیا تو اس صورت میں معاف نہیں ہوگا۔ اور اگر مرض الموت میں معاف کرایا جیسا کہ عوام میں رائج ہے کہ جب عورت مرنے لگتی ہے تو اس سے مہر معاف کراتے ہیں تو اس صورت میں ورثہ کی اجازت کے بغیر معاف نہیں ہوگا" (فتاویٰ فیض الرسول، ج: ١، ص: ٧١٦، دارالاشاعت فیض الرسول براؤں شریف)

سوال: کیا بائیں ہاتھ سے جانور ذبح کرنے سے جانور حلال نہ ہوگا؟
جواب: بعض لوگ جانور ذبح کرتے وقت دائیں ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ کا استعمال کرتے ہیں تو کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان سے ذبح کروانا درست نہیں اس طرح ذبح کرنے سے جانور مردہ ہو جاتا ہے یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے درست مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان شخص بسم اللہ، اللہ اکبر کہہ کر بائیں ہاتھ سے شرعی طریقہ پر جانور ذبح کردے تو ذبیحہ حلال ہو جائے گا مردار نہ ہوگا، البتہ بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا یہ سنت کے خلاف ہے،لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے بائیں ہاتھ سے جانور ذبح کرے تو جائز ہے۔
حدیث شریف میں ہے: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام داہنے سے شروع کرنا پسند تھا" (نزھۃ القاری، ج: ١، ص: ٥١١، رضوی کتاب گھر)

سوال: کیا عقیقہ کا گوشت ماں باپ دادا دادی اور نانا نانی نہیں کھا سکتے ہیں؟
جواب: یہ بات عوام میں بہت مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت ماں باپ اور دادا دادی، نانا نانی نہیں کھا سکتے ہیں یہ لوگوں میں غلط مشہور ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح قربانی کا گوشت سب لوگ کھا سکتے ہیں ایسے ہی عقیقہ کا گوشت بھی ماں، باپ، دادا، دادی اور نانا، نانی سب لوگ کھا سکتے ہیں شرعاً کوئی قباحت نہیں، اس لیے کہ اس کا حکم قربانی کے حکم کی طرح ہے، بلکہ جہاں اس کے کھانے کو برا جانتے ہوں وہاں ان کے لیے کھانا ضروری ہے اگر وہ کھائیں گے تو غلط رواج مٹانے کا ثواب پائیں گے۔
 اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے اس کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: "سب کھا سکتے ہیں"(الملفوظ، ح: ١، ص ٣٤، ادبی دنیا)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "عوام میں یہ بہت مشہور ہے کہ عقیقہ کا گوشت بچے کے ماں، باپ، اور دادا، دادی، نانا نانی نہ کھائیں یہ محض غلط ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں"(بہار شریعت ج: ٣، ح: ١٥، ص: ٣٥٧، قادری کتاب گھر بریلی شریف)  

سوال: کیا ماں لڑکے کو دو سال اور لڑکی کو سوا دو سال دودھ پلائے؟
جواب: عوام میں یہ مسئلہ بہت مشہور ہے کہ ماں لڑکی کو اپنا دودھ دو سال پلائے اور لڑکے کو ڈھائی سال یہ لوگوں میں غلط مشہور ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی دونوں کو ماں دو دو سال دودھ پلائے اس سے زیادہ دودھ پلانا جائز نہیں۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "بچے کو دو برس تک دودھ پلایا جائے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں، دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو ڈھائی برس تک پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں" (بہار شریعت، ج: ١، ح: ٧، ص: ٢٩، قادری کتاب گھر بریلی شریف)

سوال: کیا رات میں روپیہ پیسہ کا لین دین نہیں کرنا چاہیے؟
جواب: کچھ لوگ کہتے ہیں رات میں  روپیہ پیسہ کا لین دین نہیں کرنا چاہیے اس سے گھر میں برکت نہیں ہوتی ہے یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے ایسا خیال بدشگونی اور غیر اسلامی توہمات میں سے ہے ایسی چیزوں سے حدیث پاک میں منع کیا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بدشگونی لی وہ ہم میں سے نہیں یعنی ہمارے طریقے پر نہیں۔ لہذا قرض دینا کسی وقت منحوس نہیں اور رات میں قرض دینے یا روپیہ پیسہ وغیرہ کے لین دین کو منحوس سمجھنا جاہلوں کا خیال ہے جس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں۔
 فتاوی بحرالعلوم میں ہے:  "دنوں میں کوئی دن اور اوقات میں کوئی وقت اور گھڑی منحوس اور نا مبارک نہیں ہے سب دن اللہ تعالی کے ہیں تو کسی دن کی نحوست کا اعتقاد کرنا غیر اسلامی ہے" (فتاویٰ بحر العلوم، ج: ٤، ص: ١٤١، امام احمد رضا اکیڈمی)

سوال: کیا پیر سے پردہ ضروری نہیں ہے؟
جواب: آج کل اکثر دیکھا جاتا ہے کہ عورتیں پیر سے بیعت ہونے کے بعد ان سے پردہ نہیں کرتی ہیں حتی کہ پیر سے مصافحہ کرتی ہیں اور کچھ عورتیں تو پیر کے ہاتھ پاؤں بھی دباتی ہیں ان کا یہ طریقہ غلط اور خلاف شریعت ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اگر پیر غیر محرم ہے جیسا کہ آج کل کے اکثر پیر غیر محرم ہی ہوتے ہیں تو ان سے پردہ کرنا واجب بلکہ اگر پیر جوان یا دونوں میں سے کوئی ایک جوان ہے اور اس عمر میں ہے کہ شہوت ہو تو اس صورت میں اس سے مصافحہ کرنا اور ہاتھ پاؤں دبانا سب  ناجائز و گناہ ہے اور اگر عورت کا شوہر یا اس کا بھائی یا بیٹا وغیرہ اس خلاف شرع کام سے عورت کو منع نہ کرے تو وہ بھی گنہگار ہے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:  "پردے کے باب میں پیر وغیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے جوان عورت کو چہرہ کھول کر بھی سامنے آنا منع ہے"( فتاویٰ رضویہ، ج: ٩، نصف آخر ص: ١٠٢، رضا اکیڈمی ممبئی)
اسی میں ہے: "پیر سے پردہ واجب ہے جب کہ محرم نہ ہو" (ایضا، نصف اول، ص: ٣٠٤)
بہار شریعت میں ہے: عورت مرد اجنبی کے جسم کو ہرگز نہ چھوئے جبکہ دونوں میں سے کوئی بھی جوان ہو، اس کو شہوت ہوسکتی ہو اگرچہ اس بات کا دونوں کو اطمینان ہو کہ شہوت نہیں پیدا ہو گی بعض جو ان عورتیں اپنے پیروں کے ہاتھ پاؤں دباتی ہیں اور بعض پیراپنی مریدہ سے ہاتھ پاؤں دبواتے ہیں اور ان میں اکثر دونوں یا ایک حدِ شہوت میں ہوتا ہے ایسا کرنا ناجائز ہے اور دونوں گنہگار ہیں"(بہار شریعت ج ٤ ح: ١٦، ص: ٧٦، قادری کتاب گھر بریلی شریف)

عبد اللطیف علیمی رضوی
دارالافتا: فیضانِ تاج الشریعہ بریلی شریف
رابطہ نمبر
7235803955

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے