مدارس و مکاتب کے مٹتے آثار امت مسلمہ کے لئے لمحۂ فکریہ

*مدارس و مکاتب کے مٹتے آثار امت مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہ*

*تحریر۔۔۔۔محمد پرویز عالم امجدی علیمی*
*متعلم۔۔۔جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی*


اس وقت جو آپ اپنے چشم سر سے اکناف عالم میں اسلام کی چمک دمک،صعود و ترفع،ارتعاش و ارتقاء،حشمت و عظمت اور دین حنیف کی شوکت و جبروت،رعنائ و تابانی کی رنگا رنگی اور صبح بہاراں دیکھ رہے ہیں یہ سب مدارس و مکاتب اور علماء اسلام کی مرہون منت ہے۔

 اور انھیں کے پاک وجود کے طفیل ہفت اقلیم کے خزانے میں ایمان و عقیدے کا بیش بہا نگینہ ایمانی لٹیروں سے اب تک محفوظ ہے، انہیں مدارس و مکاتب نے ہی امت مسلمہ کے سپرد نجید و نایاب،وحید و فرید در ثمین اور گوہر گنجینہ افراد حوالے کیے جو دنیا کے کسی اور کارخانے میں تیار نہیں ہوسکتے تھے جو کہ انھیں مدارس و مکاتب کا خاصہ اور طرہ امتیاز تھا۔

اور ہو بھی کیوں نا!!مدارس و مکاتب کا قیام ہی دین کی آبیاری اور مسلک و مشرب کے شجر کو تناور و توانا بنانے کے لیے ہی کیا گیا تھا۔
لیکن ہائے رے نیرنگئ زمانہ جب سے ان مدارس کے صحن میں طامع دنیا،غلام شکم،مال و منال کے پجاریوں نے پناہ لے لی ہے تب سے ان مدارس کا بحر اقبال جذر و انحطاط کا شکار ہو کر رہ گیا ہے اور نتیجتا اب یہاں بھی لوٹ کھسوٹ،رشوت خوری،عشوہ بازی،طراری و عیاری کا بازار گرم ہوچلا ہے حیف صد حیف!!! کل جہاں تزکیہ نفس،تطہر قلب کے ذریعہ سے کائنات کو تسخیر کیا جاتا تھا اب اس وہیں منافی شرع کام دھلڑلے سے کیے اور کرائے جا رہے ہیں اور اس کی موجودہ مثال مدارس اسلامیہ کی پاک سار زمین پر یوگا منانا ہے۔ اس تناظر میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ایسے بھیانک دور میں اب ان مدارس سے کسی انقلابی رہنما کے نکلنے کی یاس لگانا خیال بے سود ہے۔
العوام کا الانعام۔۔ یعنی عوام چوپائے کے مثل ہوتی ہے اور ہندی عوام تو اس سے بھی چار درجہ آگے ہے اور اسی کا فائدہ اٹھا کر کچھ نام نہاد مولوی،پیر مغاں اور متصوف لوگ ،مذہبی مفاہمت اور رواداری کے نام پر عوام کو اپنے دام فریب میں پھنسا کر خوب لوٹتے ہیں۔۔

ایسے نازک دور میں عوام کی تعلیم و تربیت اور ان کے عقائد کے تحفظ کا اہم ذمہ مدارس و مکاتب اور علما کا تھا لیکن حال یہ ہے کہ ان مدارس و مکاتب پر بھی اب ایسے افراد کا تسلط ہو چکا ہے جنھیں شریعت کی ش کا بھی علم نہیں 


اور مادیت کے تھپیڑوں سے دنیا کا کوئ بھی طبقہ اپنی کشتی کو صاف بچا کر نکال نہ سکا تو پھر علماء کا شجرہ بھی کوئ فرشتوں سے نہیں ملتا اس لیے ان کے دلوں میں بھی دنیا کی آسایش و زیبائش کا انگڑائی لینا فطری بات تھی اسی کے پیش نظر اب علماء اور کبار مشائخ و شیخ الحدیث بھی اپنے بچوں کو عالم بنانے کے لیے تیار نہیں اس لیے کہ مادیت نے ان کے دروازے پر بھی دستک دی ہے۔
 مدارس اسلامیہ میں اب ناپائیداری،بے ثباتی،یاس کلی اور کامل ناامیدی چھاتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف پرستان باطل کی طوفانی یلغار،عناد کی آگ،نفرت کا طوفان بھی جانب مدارس برق رفتاری کے ساتھ بڑھ رہا ہے مگر افسوس اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اہل خرد و بینش کے خیمے میں ابھی بھی سناٹا پسرا ہوا ہے۔ 

ان کی بے غیرتی دیکھ کر مجھے سقوط اسپین کی اسلامی تہذیب و ثقافت،اخلاقی زوال،روحانی اضمحلال کی کرب خیز تاریخ یاد آتی ہے کہ وہاں بھی آج ہی کی طرح سب سے پہلے مدارس اسلامیہ کی پرشکوہ اور دیدہ زیب عمارات کو پیوبند خاک کر دیا گیا اور پھر شدہ شدہ وہاں سے اسلام آپ ہی ختم ہوتا چلا گیا۔
کعبہ کی عظمتوں کی قسم! اس یاس و نا امیدی کے ماحول میں میرا وجدان کہتا ہے کہ اب بھی اگر ہم اپنے زعماے امت و اساطیر ملت کی ہفت اقلیم رفعت اور ان کی فکر و کردار کی تربیت کو اپنا لیں تو آج بھی یقینا ہم دشمن کے ناپاک عزائم اور ان سری تحریکات کو زمین میں گاڑ کر رکھ سکتے ہیں جو ہمیں خون کا غسل دینے کے لیے بیتاب و بیقرار ہیں۔ لیکن ہم خناس کے وسائس کے شکار ہو کر رہ گیے ہیں۔ 
مدارس و مکاتب کے ہئیت و ہیولیٰ کو لوگوں نے اب یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ان کے در و بام پر حجر و خشت کی بارش کر کے ان کو سسکنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ اب اس کی ہی ایک خون آشام داستان برستی ہوئ آنکھوں سے پڑھیے جس کی وجہ سے دل بے قرار نے اس موضوع پر خامہ سرائ پر مجبور کیا ۔۔ 
واقعہ کچھ یوں ہے کہ بستی ضلع میں ایک گاؤں کا نام مدار پور ہے۔ وہیں قریب کے گاؤں میں ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے جانے کا اتفاق ہوا، نکاح خوانی کی ذمہ داری مجھ بے نوا کے زنبیل میں ڈال دی گئ لیکن نکاح کا رجسٹر دوسرے گاوں سے لانے جانا تھا لہذا میں ہی ایک شخص کے ہمراہ وہاں گیا
جب مدار پور گاؤں کے مدرسہ میں پہونچا تو وہاں کی فلاکت زدگی و بد حالی کو دیکھ کر طبیعت میں عجیب ہیجان برپا ہو گیا،دل و دماغ ٹھٹھک کر رہ گیے، خیالات کے تموج نے مجھے بہت دور لے جا کر پھینک دیا اور وہیں کھڑے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ریمن و مکار دنیا نے ہمیں اپنے تابناک ماضی سے کس قدر کاٹ ڈالا ہے۔‌تھوڑی دیر گم سم کھڑا رہا پھر جب امام صاحب نے اندر آنے کو کہا ہم ان کے ساتھ اندر گیے، تو چند پڑھنے والے بچے نظر آئے جن کی تعداد بمشکل آٹھ سے دس رہی ہوگی لیکن ان کا حال یہ تھا کہ وہ اس قدر غربت و افلاس کے مارے لگ رہے تھے کہ ان کے بدن و لباس سے شدید قسم کی بدبو پھوٹ رہی تھی شاید وہ پیشاب کیے ہوے کپڑے پہن کر ہی مدرسہ آ گیے تھے تاسف کا اظہار کرتے ہوے جب میں نے امام صاحب سے اس قدر مذہب بیزاری کی وجہ پوچھی!! تو انہوں نے کہا حضرت بچے کچھ صبح آتے ہیں پھر اسکول چلے جاتے ہیں،میں نے پھر ایک سوال کیا آپ کتنے سال سے یہاں خدمت انجام دے رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا بیس پچیس سال سے پھر اس کے بعد میں رجسٹر لے کر وہاں سےچلتا بنا لیکن تمام راہ اس گاؤں کے لوگوں کی دین سے بیزاری میرے اعصاب پر چھائی رہی اور اس منظر نامے نے مجھے میرے ننہال کی یاد دلا دی کیونکہ میرے ننہال میں بھی مکتب دو دہائی تک اسی پر پیچ دور سے گزرا۔ نہ کوئی قرآن مجید کو مخرج کی درستگی سے پڑھتا ملتا اور نہ ہی کوئی اٹکے بغیر اردو پڑھنے والا ملتا اور نہ ہی کوئ عبادت کے تقاضے پورا کرنے پر قادر تھا لیکن اب وہاں کےحالات الحمد للہ کروٹ لے رہے ہیں بہترین تعلیمی نظم و نسق،لوگوں کی اصلاح و تبلیغ کے لیے ایک باکمال مدرس خدمت انجام دے رہے ہیں۔رب قدیر و کبیر اسے فوزمندی سے ہم کنار کرے آمین۔

صاحبوں!رمز و سر سے حقیقت و آگاہی،ظرف تخیل میں دوام و ثبات، آفاق و انفس کی وسعتوں میں کامیابی کا پرچم لہرانے کا ہنر،حسن لطافت میں کمال، تفکر و تذکر میں مہمیز لگانا،تعقل و تدبر میں بالیدگی مدارس و مکاتب ہی ہمیں سکھاتے ہیں۔ اگر یہی زوال کے شکار ہوگیے تو اسلام و ایمان کو بچا پانا بڑا دشوار ہو گا۔ابلیس لعین کے پجاریوں کی اسلام مخالف پالیسیوں کو نار الیم کے حوالے کرنے کے لیے ان کو بقا و دوام کے راہ پر گامزن کرنا ہی ہو گا۔ تنگ نظر میڈیا کی طرف سے جو اسلام کی تجدید و اصلاح ،علما کی ہجو،مذہب کی بنیادی عقائد و نظریات میں اشکال و اشتباہ کی جو آواز اٹھ رہی ہے جس کا تانا بانا مادیت پرست اسلام دشمن یہودی تحریک سے جا ملتا ہے۔جنہوں نے ساینس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے پر فریب نعروں کے ساتھ ہمارے گھروں میں تہذیب نو کی عریانیت،جنسی فحاشی،بےپردگی داخل کررکھی ہے۔
آج سے تیس چالیس سال قبل ہم اپنے ماضی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ادراک ہو گا کہ ہم جنون کی حد تک اپنے مذہبی قدروں کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ لیکن مادیت پرستی کی سرخ آندھی اور سرکش لہر نے ان سبھوں کو پامال کر دیا ہے۔ 
 مدارس دین کے مضبوط مراکز ہیں۔ جو مذہب بیزاری کا قیامت خیز طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اس کے سد باب اور بیخ کنی انہیں مدارس کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اس لیے علما،ائمہ اور جملہ ہمدردان قوم و ملت سے دست بستہ عرض ہے کہ ان مدارس و مکاتب کو ہر حال میں باقی رکھنے کی کوشش کریں ورنہ جس دن یہ نہ ہوئے تو پھر سقوط اسپین کے بعد سقوت ہند کی تاریخ بنتے دیر نہیں لگے گی۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے