مسلم لڑکیاں فتنۂ ارتداد کی جال میں:وجوہات اور حل

 مسلم لڑکیاں فتنۂ ارتداد کی جال میں:وجوہات اور حل

-----------------------------


 

از قلم: محمدعامرحسین مصباحی 

رسول گنج عرف کوئلی 

استاذ:جامعہ ضیائیہ فیض الرضا ددری 

-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

حالیہ دنوں میں شوشل میڈیائی پلیٹ فارم سے جس تیزی کے ساتھ مسلم لڑکیوں کا غیرمسلم لڑکوں کے ساتھ عشق و معاشقہ اور ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق شادی کرلینے کی تصویریں اور ویڈیوز موصول ہورہی ہیں وہ مسلم سماج کے اندربہت زیادہ بے چینی اور اضطرابی کیفیت پیدا کررہی ہیں۔

 یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جتنی خبریں موصول ہورہی ہیں اور جتنی تصاویر اور ویڈیوز آرہی ہیں وہ سب کی سب صحیح نہیں بلکہ بہت سی فرضی کہانیاں، جھوٹی خبریں اور افواہیں بھی ہیں جسے سوچی سمجھی سازش کے تحت پھیلانے کا کام کیا جارہا ہے تاکہ ہندوتوادی شدت پسند تنظیمیں اپنے ناپاک عزائم کو پایۂ تکمیل تک آسانی کے ساتھ پہنچا سکیں مگر ساری خبریں جھوٹی بھی نہیں کہ معتمد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے کی بنسبت اس میں بہت تیزی آتی جارہی ہےاورآئے دن ملک کےکسی نہ کسی صوبہ وضلع سے ایسی خبریں آہی جاتی ہیں جس سے ہماری غیرت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ 

    ایک ہی ملک کے ہر صوبہ و ضلع اور بستی میں ساتھ ساتھ ہندومسلم کا اجتماعی زندگی گزارنے کی وجہ سےشاذونادر ایسے واقعات پیش آجاتے تھے جس میں ایک مسلم لڑکے کو کسی غیر مسلم لڑکی سےیا ایک مسلم لڑکی کو غیر مسلم لڑکے سے محبت ہوگئی اور نتیجہ بھاگ کر کورٹ میرج کرنے تک پہنچ گئی مگر یہ کسی بھی دھرم کے ماننے والوں کے نزدیک درست عمل نہیں بلکہ اسلام میں تواس طرح کی شادی سرے سے منعقد ہی نہیں ہوسکتی ۔

  مگر متشدد ہندوتوادی تنظیمیں اب ملک میں فرقہ واریت اور دنگے فساد برپا کرنے نیز ملک کی امن و شانتی کو بھنگ کرنے کے لیے ایک منظم سازش کے تحت مسلم لڑکے کی غیر مسلم لڑکی کے ساتھ حرام محبت و شادی کو ’’ لوجہاد‘‘ کا نام دے کر ان چیزوں کو مسلمانوں کے عزائم سے جوڑچکے ہیں اور اب اس کے خلاف پوری قوت کے ساتھ طاغوتی طاقتیں میدان میں آچکی ہیں، جہاں معاملہ ان کی اپنی لڑکیوں کا آتا ہے تو ’’ لو جہاد‘‘  اوردوسری طرف خود منظم سازش کے تحت مسلم لڑکیوں کو جال میں پھنساکر پیار و محبت کا نام دے کر شادی کرادیتے ہیں ۔ یہ کیسی دوغلی پالیسی ہے؟

ضروری ہے کہ حکومتِ ہند اور عدالتِ عظمیٰ اس طرف مضبوط قدم اٹھائیں تاکہ اس معاملے کا حل نکل سکے ۔ 

    اب ان کا مقصدہر ایک پرواضح ہوچکا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلم لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنساکر شادی بیاہ اورگھومنے پھرنے کی آزادی کا لالچ دے کر ان کے ایمان کا سودا کیا جائےاور ان لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کردی جائیں۔  

  اور یہ حقیقت ہے کہ وہ لڑکیاں جو اپنی قوم اور مذہب سے غداری کرکے غیروں کے دامن میں چلی جاتی ہیں ان کی زندگیاں جہنم بنادی جاتیں ہیں، ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے بلکہ زدوکوب کرکے جان تک لے لی جاتی ہے۔ ابھی چند دنوں قبل اخبار کی سرخی بننے والی یہ خبر ’’ مذہب چھوڑ کر شادی کرنے والی رضوانہ کا عبرت ناک انجام ‘‘یعنی باہر گھمانے کی فرمائش کرنے پر شوہر’ سدھارتھ‘نے قتل کردیا ‘‘  قلوب و اذہان کو جھنجھوڑنے والی تھی۔اسی طرح میرٹھ سے خبرآئی کہ’’حِنا ‘‘اور ’’ افسانہ‘‘ نامی لڑکیوں کے عاشق’’گووربھ تیاگی‘‘اور ’’آکاش‘‘نے دونوں کوخوفناک موت کا مزا چکھایا ۔ یقیناً یہ خبریں اور یہ لڑکیاں باقی اس طرح کے ناپاک ارادہ رکھنے والی لڑکیوں کے لیے سراپا عبرت کا نشان ہیں مگر شوشل میڈیا پر اکٹیو رہنے والی لڑکیاں ان کے عبرت خیز انجام کی پرواہ کیے بغیر اپنے عاشقوں پر اعتماد کرکے ان کے ساتھ چلی جاتی ہیں حالانکہ ان کا بھی انجام وہی ہوتا ہے، اگر ماری نہیں گئیں تو انھیں بھی بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر نہ ہی انہیں اپنے عاشقوں کے گھر پناہ ملتی ہے اور نہ ہی والدین کے گھر ۔

    تعجب تو اس بات پر ہے کہ اسلام کی وہ مقدس شہزادیاں جنھیں ان کے دین و مذہب نے سب سے زیادہ پردے کا حکم دیا اور انہیں بار بار متنبہ کیا جاتا رہا کہ غیر تو غیر اپنوں (غیرمحرم مسلمان)سے بھی حیا کریں اور اپنی نگاہیں نیچی کریں مگر کیا وجہ ہےکہ ہماری اسلامی بہنوں کی نگاہیں غیر اسلامی مردوں سے لڑنے لگ گئی ہیں؟ کیا وجوہات ہیں جو اسلامی طرزِ عمل سے ان کو بغاوت کرنے پر مائل کرنے لگی ہیں؟ کیوں ان کے قدم لڑکھڑانے لگےہیں؟ کیوں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والی شہزادیاں اپنی عزت و عصمت کا سودا کرنے کو تیار بیٹھی ہیں اور جائز طریقے پر نکاح کرکے گھر بسانے کی بجائے اپنی دنیا و آخرت سب کچھ تباہ کررہی ہیں ؟؟؟

   اگر ان اسباب و علل پر نگاہ کرتے ہیں تویہ وجوہات سامنے آتے ہیں ۔


(۱)  قلوب میں خوفِ خدا ومحبتِ رسول علیہ السلام کا فقدان

(۲)  مسلم گھرانوں میں اسلامی اور مذہبی ماحول کی جگہ مغربی ماحول کی پذیرائی 

(۳)  عصری تعلیمات سے حددرجہ لگاؤ ،قرآن و سنت اوردینی و اسلامی تعلیمات سے دوری 

(۴)  لڑکے اور لڑکیوں کو عصری اعلیٰ تعلیم دلانے کی خاطر شادی میں تاخیر کرنا ۔ 

(۵)  وقت گزاری کے لئے فلمیں ،ڈرامے، سیریلز،کمیڈی اور فحش وحیا سوز ویڈیوز دیکھنا۔

(۶)  لڑکے اور لڑکیوں کاعصری علوم کے حصول کی خاطر ایسے کالجز اور یونیورسیٹیز کا رخ کرنا جہاں باہمی اختلاط کو غلط نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ مردوعورت کا قدم سے قدم ملا کر چلنا ترقی کی راہیں ہموار کرنا سمجھا جاتا ہے،لڑکوں کی لڑکیوں سے دوستی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے بھی فیشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ 

(۷)  غیر مسلم لڑکوں سے مسلم لڑکوں کی دوستی اورانھیں بخوشی اپنے گھروں تک لانا ۔

(۸)  لڑکیوں کا اپنے بھائی کے غیر مسلم دوستوں سے بے تکلف ہوجانا۔ 

(۹)  والدین کا اپنے بچوں کی نگرانی نہ کرنا بلکہ انھیں آزادی کے نام پر ہر طرح کی کھلی چھوٹ دے دینا ۔

(۱۰)    لڑکیوں کا خود سے پارچُن کی دکانوں پر جاکر بناؤ سنگار کا سامان خریدنا ۔ 

(۱۱)   بلا ضرورت بغیر کسی محرم کے اکیلے ہی مارکیٹ میں زیورات کی دکانوں میں جانا ۔

(۱۲)  لڑکیوں کا گھر سے باہر مکمل بن سنور کر نکلنا

(۱۳)  ہر گھر میں بلکہ ہر فرد کے ہاتھوں میں انڈرائڈ موبائل کا ہونا وغیرہ وغیرہ۔

    یہ ساری وہ وجوہات ہیں جن سے آج ہماری نسلِ نو بہکتی ،بگڑتی اور اپنے دین و مذہب سے باغیانہ رویہ اختیار کرتی جارہی ہے۔ اگر یہی سلسلہ رہا اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت اوران کی حرکات و سکنات پرکڑی نگاہ نہیں رکھی گئی اور جو حالیہ خبریں موصول ہورہی ہیں اس سے ہوش کے ناخن نہ لیےگئےتو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنی اولاد کی ذلیل حرکتوں سے ذلت و رسوائی کے گڈھے میں جاگریں گے اور ہمارا حال ناگفتہ بہ ہوجائے گا اور آنے والی نسلیں اس بےحیائی اور غلط روئی کا ہمیں ذمہ دار ٹھہرائیں گی۔

   اس لئے وقت رہتے ہمیں اپنی اسلامی حس بیدار کرنی اور غفلت کی دبیز چادر کو پرے ہٹا کر بیدار ہونا ہوگااور اپنے گھروں کو اسلامی تعلیمات اور اسلامی ماحول سے آراستہ کرنا ہوگا تبھی جاکر ہم ایسی ذلتوں سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔کیونکہ اس کا واحد اور سب سے بہترین حل اسلامی ماحول اور اسلامی قوانین پر حتیٰ الامکان عمل پیرا ہونا ہے۔ اب ہمارے لیے جاننا ضروری ہے کہ اسلام میں اس تعلق سے کیا حکم صادرہوا ہے۔تاکہ اس فتنۂ ارتداد پر لگام لگانا آسان ہوسکے۔  

  اسلام میں مشرکین سے شادی

 قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ۔ 

    وَلَاتَنْکِحُوْا الْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنْ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْ مِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَلَا تُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا وَلَعَبْدٌ مُّوْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَکُمْ اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ  وَاللہُ یَدْعُوْا اِلَی الْجَنَّۃِ وَالْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ

ترجمۂ کنز الایمان :-  اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کروجب تک مسلمان نہ ہوجائیں ۔اور بے شک مسلمان لونڈی مشرکہ سے اچھی ۔ اگرچہ وہ تمھیں بھاتی ہواور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور بے شک مسلمان غلام مشرک سے اچھا اگرچہ وہ تمھیں بھاتا ہو ۔وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اپنے حکم سے 

    خلاصہ یہ کہ انسانی فطرت ہےکہ خوبصورت اور پُرکشش چیزوں کی طرف طبیعت کا میلان زیادہ ہوتا ہے مگر ہر اچھی دِکھنے والی چیز کی قربت فائدہ مند نہیں ہوتی ۔ ٹھیک اسی طرح ایک مرد کا خوبصورت عورت کی طرف طبیعت اور ذہن کا میلان فطری ہے مگر یہ جواز کی حد میں ہوتو سکون بخش ہے ورنہ اس کے مضر نتائج سے تاریخ پُر ہے۔اس لئے مشرک مرد یامشرکہ عورت سے ایک مسلمان کی شادی نہیں ہوسکتی خواہ وہ خوبصورتی کے اعتبار سےجتنے اچھے بھلے معلوم ہوتے ہوں کیونکہ یہ اچھی دِکھنے والی ایسی چیز ہے کہ اس سے جان اور جان سے قیمتی شئی ایمان کے لئے زہرِ ہلاہل ہے۔ 

  مذکورہ آیتِ کریمہ شادی بیاہ کے ذریعے فتنۂ ارتداد سے بچنے کا مکمل حل ہے۔ لیکن ساتھ میں زناکاری وبدکاری سے بچنے کے متعلق جتنی زیادہ احتیاطی تدابیراپنانے کا اسلام نےآپس میں حکم دیا ہےاس سے کہیں زیادہ احتیاط غیرمسلموں اور اور مشرکوں سے اپنانا ہوگا۔تبھی جاکر ہم اس تباہی سے بچ سکتے ہیں ۔

اسلام میں زنا کاری وبدکاری سے بچنے کا نسخۂ کیمیا

  اللہ رب العزت نے قرآنِ مقدس میں ارشاد فرمایا: وَقُلْ لِلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظَوْا فَرُوْجَھُمْ  ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَھُمْ اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ   وَقُلْ لِّلْمُؤمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّاماظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ

ترجمۂ کنز الایمان: مسلمان مردوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بہت ستھرا ہے بے شک اللہ کو ان کے کاموں کی خبر ہے۔ اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگارظاہر نہ کریں ۔


زنا کے قریب بھی جانے سے منع 

وَلَاتَقْرَبُوْا الزِّنیٰ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّسَآءَ سَبِیْلًا

ترجمۂ کنزالایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ

    اس آیتِ کریمہ میں بدکاری اور زناکاری سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چاہیے کہ آدمی زنا سے بلکہ اس کے لوازمات و اسباب سے  بھی بچتا رہے تاکہ گناہ سے بچنا آسان ہو۔

  زنا کے اسباب نو ہیں ۔

(۱)   بے پردہ عورتو ں کا اجنبی لوگوں میں چلنا پھِرنا

(۲)   اجنبی سے خلوت میں بیٹھنا ،ملنا جُلنا

(۳)   بھڑکیلا ۔فینشی لباس پہن کر اجنبی کے سامنے آنا،

 (۴)   مخلوط تعلیم

 (۵)   فلم اور ڈرامے اور تصویریں دیکھنا

(۶)   گانے ناچ اور طبلے سارنگی سننا

(۷)  چست لباس پہننا

 (۸)   سُرخی پوڈر لگا کر عام محفلوں میں آنا

 (۹)   دکانوں میں کاروبار عورتوں کے ہاتھ میں دینا جب کہ غیر مرد بھی گاہک ہوں شریعت میں اجنبی ہر وہ شخص ہے جس سے نکاح جائز ہو۔   (تفسیرِ نعیمی جلد ۱۵؍ ص: ۱۶۷)

  ان تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود شامتِ نفس کی وجہ سےکسی سے زنا سرزد ہوجائے تو پھر شریعت نے اس کی سزا مقرر کی ہے اگر دونوں یعنی زانی اور زانیہ غیر شادی شدہ ہوں تو انہیں سوکوڑے مارنا ہے اور شادی شدہ ہوں تو انہیں سنگسار کرنا ہےاگر اس اسلامی قانون کو نافذ کردیا جائے تو سماج سے بہت حد تک زنا جیسی بُرائی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ مگر چونکہ یہاں اسلامی قانون نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ سزا نہیں دی جاسکتی اس لئے سماج کے لوگ مناسب سزا تجویز کریں گے اور نہ ماننے کی صورت میں سماجی بائیکاٹ کرنے کا حکم ہے تاکہ یہ بُرائی جڑ سے ختم ہو۔ 

    اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب آپسی حکم اتنا شدید ہے تو غیروں کے ساتھ کا کتنا شدید حکم ہوگا۔ یقیناً اس میں ایمان و عقیدے اور جسم و جان سب کا خطرہ ہے اس لئے اس کے سدِ باب کے لیے ہرممکن کوشش کی جائے۔  اللہ رب العزت قوم کی بیٹیوں کو اس بلا سے محفوظ رکھے۔ آمین


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے