عصر حاضر میں مسلک اعلیٰ حضرت کی ضرورت و افادیت
از قلم:- محمد ارشاد احمد قادری نیپال
متعلم طیبۃ العلماء جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی (مںٔو)
چودھویں صدی کے آغاز میں بے شمار فرقہ ہاۓ باطلہ معرض وجود میں آ گئے تھے دین و سنیت پر خارجی و داخلی طور پر حملے کی ابتدا ہوگئی تھی یہ لمحات نہایت پرفتن و پر آشوب تھے، پورے ہندوستان کی فضا مسموم وزہر آلود تھی، فرنگی(برٹیس) اقتدار میں تھے۔
ان کی جفاکشی و ستم گری شباب پر تھیں۔ عیسائی مبلغین کار تبلیغ پر مامور تھے حکومتی طاقتوں کا بھر پور استعمال کیا جار ہا تھا۔ مغربی تہذیب و ثقافت نے اپنا بسیرا ڈال دیاتھا،جدید و عصری علوم و فنون کا رسم و چلن عام ہورہا تھا۔ بے حیائی وبے غیرتی کا ننگا ناچ ہونے لگا تھا۔ اہل جبہ و دستار ایمان بیچنے لگے تھے ۔ علوم عصریہ کے ماہرین کا قدم جادہ مستقیم سے بھٹک رہا تھا۔ دولت کی کھنک نے مختلف عقائد ونظریات کے قائلین کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔ شش جہات سے ایوان اسلامی پر برفیلی برسات ہونے لگی تھی۔ وہابیت نجدیت، شیعیت، خارجیت، رافضیت سلفیت ، غیر مقلدیت ، دیوبندیت قادیانیت، نیچریت ، مرزائیت، دھریت ، چکڑالویت اتحاد قومیت، گاندھویت، مہا سجائیت تحریک خلافت، گائے قربانی ترک کر دینے کی حمایت صلح کلیت اور تبلیغیت کا عظیم سیلاب امنڈ پڑا تھا۔ بدعات، ضلالت، گمراہیت، خرافات نفسانیت، حیوانیت شہوانیت، شیطانیت اور خباثت ، رہبانیت ، اور ابلیسیت کی گرم بازاریاں ہونے لگی تھیں۔ ایسے ہوش رہا ماحول میں اکابرین و اساطین ملت دم بخوم تھے۔
مدارس اسلامیہ کی کشتیاں ہچکولے کھا رہی تھیں۔ خانقاہی نظام کا شیرازہ منتشر تھا۔ مشائخ عصر کی آنکھیں ششدر و حیران تھیں کسمپرسی کا ماحول تھا۔ اپنے اپنے بساط کے مطابق دفاعی کا روائی کر رہے تھے لیکن طوفان تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ رب قدیر کا احسان عظیم ہوا کہ اپنے محبوب بندے کو امام اہلسنت بنا کر میدان کارزار میں اتار دیا جس کے ذریعے اسلام کا تحفظ ہوا۔ عقائد صحیحہ کو زندگی ملی۔ امام احمد رضا بلاشبہ عظیم مجدد ،عظیم فقیہ، عظیم دانش ور، عظیم مفکر ومدبر تھے۔ خداوند قدوس نے اقتضائے وقت کے مطابق بےشمار کمالات و محاسن سے نواز کر جامع علوم و فنون اور مرکز عوام و خواص بنادیا تھا۔
میر کارواں بن کر ان فتنہ گر طوفانوں کے سامنے ڈٹ گئے اور احقاق حق و ابطال باطل میں اپنی خداداد علمی و فکری توانائیاں صرف کر دیں اور دشمنان اسلام کے ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا، یہ فکری گمراہیاں جس شدت سے ابھریں اور جن چور دروازوں سے قلعہ دین و سنیت میں داخل ہو کر اس کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے درپے تھیں اس کے رد و ابطال کے لیے توفیق خداوندی کے سہارے،فکروآگہی اور نہایت سنجیدگی و متانت کے ساتھ بڑھ چڑھ کر مقابلہ کیا اور ہر محاذ پر شکست فاش دیکر انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ احقاق حق اور ابطال باطل کی خاطر ہزار سے زائد کتب تصنیف کیں۔ امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدا کیا، علماء و مشائخ کو ان کے مقام و مراتب کا احساس دلایا، علماء وقائدین کی منصبی ذمے داریوں کو از سر نو تازہ دم کیا۔ ضرورتوں کا خاص خیال رکھا۔ مساویانہ عقائد و نظریات کے حاملین کے مابین باہمی اتحاد و اتفاق کا ماحول پیدا کیا۔ اخوت و محبت کی فضا مشکبار کرنے کی غرض سے قرآن و احادیث سے دلائل و براھین کی عطر بیزیاں کیں۔ نفرت و بیزاری افتراق و انتشار کے بادسموم کے جھروکوں پر کمند ڈالنے کے لئے شرعی احکام سپرد قلم کئے،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی کھیتیاں لہلہاں اٹھیں، نفرتوں کی دیواریں گر گئیں ۔ اہل ایمان کے گلشن ہستی میں بہار آئی۔
نتیجتا دیوان گان مصطفی نے ذات امام اہل سنت اعلی حضرت بریلوی کو اپنا مرکز و مرجع تسلیم کر لیا- امام احمد رضا کی ذات نقطہ اتحاد بن کر منظر شہود پر جلوہ گر ہوئی۔ فکر رضا حقانیت کی کسوٹی بنی۔ اور مسلک اعلیٰ حضرت، اہلسنت کا علامتی نشان ہوا۔ بدایوں، مارہرہ، کچھوچھہ، کالپی، بھینسوڑی، بلکہ تمام مدارس اسلامیہ، خانقاہیں، مکاتب حقہ، مساجد اہلسنت اور مدارس اسلامیہ ہندوستان کے چپہ چپہ، ایشیا کے گوشہ گوشہ اور عرب و عجم کے وادیوں سے مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ بلند ہونے لگا۔ اس اتحاد کو مزید تقویت بخشنے اور استمرار و استحکام کیلئے ہر نہج اور ہر قسم کے ہتھیار سے اہلسنت کو آراستہ کیا۔ ۱۳۲۲ھ مطابق ۱۹۰۴ء میں مرکز علم وادب منظر اسلام کی بنیاد رکھی اور بریلی کو علم و ادب اور عشق و وفا کامرکز بنا دیا،یہی وہ اسلامی ہیڈ کواٹر ہے جہاں بیٹھ کر خوش عقیدگی کے گوہر لٹائے گںٔے ہیں۔ علوم وفنون کے گل بوٹے بنائے گئے ہیں۔ افواج اسلامی کی منظم و مضبوط ٹیم تیار کی گئی ہے۔ یہی وہ منبع علم وحکمت ہے ۔ جس سے بے شمار آبشار پھوٹے ہیں یہ ایک ایسا مطلع انوار ہے۔ جہاں سے بے مثل و بے مثال آفتاب و مہتاب طلوع پذیر ہوئے ہیں- جن کی شعاعیں فضائے عالم کو منور کررہی ہیں حجۃ الاسلام، مفتی اعظم، محدث اعظم، مفکر اعظم، صدر الشریعہ، ملک العلماء، حافظ ملت، مجاہد ملت، شیر بیشه اہلسنت، صدر العلماء، محدث اعظم پاکستان، مفسر اعظم ہند، ان ہی گلستان کرم کے گلہائے رنگا رنگ ہیں ۔ جن کی نکہت علمی سے ایک جہان معطر و مشکبار ہے۔ صدر الافاضل، مبلغ اعظم، برہان ملت، امین شریعت، محبوب ملت، اس بارگاہ کے خوشہ چیں رہے ہیں،یہ وہ نادر وانمول شخصیات ہیں جن پر عالم اسلام کو ناز ہے۔ ان ہی چراغان رضا سے ہزاروں چراغ کو ضیائیں ملی ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آج بالخصوص جو ہندو پاک کے سنیوں کے ایمان و عقائد میں پختگی اور سینوں میں عشق و محبت کی شمع روشن ہے وہ اسی چراغ سنیت کا مرہون منت ہے۔
اسی بادشاہ علوم وفنون نے توحید و رسالت، اطاعت، اخلاق حسنہ، تزکیہ نفس، حقوق اللہ وحقوق العباد، تجارت، زراعت، صحافت، صلح و جہاد، سیاست و معاشیات، اقتصادیات، عبادات،و معاملات، ارضیات، فلکیات، طبعیات، حیوانات، نباتات، جمادات، منقولات و معقولات و دیگر فروعیات و اصولیات اور جزئیات و کلیات پرانمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
مصنفین، ادبا، شعراء، مفسرین، مقررین، واعظین، مجاہدین، مدرسین، فلسفی، منطقی، اہل سیاست، عصری و دینی تقاضے سے لیس افراد اشخاص کو رزمگاہ حق و باطل میں اتارا جنہوں نے اسلام مخالف ہر اٹھنے والے طوفان کا رخ موڑ کر رکھ دیا ۔ ۱۳۳۸ھ میں الرضا نامی رسالہ جاری کیا اور قوم وملت کو صحافتی اہمیت وافادیت کا شعور بخشا اس کے ذریعے عقائد صحیحہ اور نظریات حقہ سے آگاہی دی بدعات وخرافات اور اسلامی عقائد سے متصادم امور کا قلع قمع کیا مراسم اہلسنت کی صداقت وحقانیت پر اٹھنے والے ہر سوال کا مسکت جواب دیگر دشمنان اسلام کو مبہوت وساکت کر دیا۔ اس ایک رسالے نے اہلسنت کے ہزاروں رسالے کو جنم دیا جس کے باعث ہر چہار جانب عشق رسالت مآب کا اجالا پھیل گیا۔ ۱۹۲۰ء میں جماعت رضائے مصطفیٰ کی داغ بیل ڈالی اور اہلسنت کا اجتماعی و اتحادی پلیٹ فارم کا قیام عمل میں آیا اور تنظیمی کارکردگی کے ذریعہ اجتماعی قوت کا احساس بیدار کیا۔ اس تنظیم اور اجتماعی طاقت نے ہندوستان کی زمین پر ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ تحریک شدھی کا فتنہ ہو یا کسی اور باطل تحریک و تنظیم کی بد تمیزیاں سب کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ ایک رضا نے سب کچھ عطا کیا۔ مواد دیا ۔ ہتھیار دیا۔ اتحادی پلیٹ فارم دیا۔ منظم و مضبوط اسلامی لشکر دیا۔ ہر ایک سوال کا جواب دیا۔ اس طرح گلستان اسلام کو تاراج ہونے سے بچالیا۔ جس کے صلہ میں مسلمانان عالم نے بریلی کو مرکز اتحاد قرار دیا۔ اور عقائد حقہ کی شناخت نظریات رضا کو بتایا جس کا مشاہدہ آل انڈیا سنی کانفرنس مراد باد و بنارس میں اہل دنیا کی نگاہوں نے کیا۔ امام احمد رضا کے افکار و نظریات پر ایک صدی گزر جانے کے باوجود اس کی معنویت و ضرورت آج بھی اسی طرح باقی ہے۔ جس طرح ان کے عہد میں تھی بلکہ اس کی اہمیت وافادیت عہد رضا سے بھی کہیں زائد عصر حاضر میں ہے بلکہ بعض نظریات کی معنویت تو آج عہد رضا سے بھی سوا نظر آتی ہے۔ امام احمد رضا کے افکار و نظریات جسے مسلک اعلیٰ حضرت کہا جاتا ہے۔ یہ وقتیہ حالات کے نتائج نہیں تھے۔ کہ کچھ عرصے کے بعد اپنی معنویت وافادیت کھو بیٹھتے بلکہ مسلک اعلیٰ حضرت تو اسلام کے عین مطابق تھا۔ جو قرآن و احادیث، اجماع امت اور قیاس شرعی، اقوال سلف اور افعال خلف سے ماخوذ تھے۔ جن پر گردش لیل و نہار اثر انداز نہیں ہوتے۔ بلکہ دراصل قرآن وسنت کے حقیقی جلوے جب عمل کے میدان میں ضوفشاں ہوتے ہیں تو حوادث زمانہ خود اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔ طوطی ہند حضرت علامہ قادر بخش سہسرامی علیہ الرحمہ سے کسی نے سوال کیا کہ اپنے بیگانے کی شناخت کیسے کریں کیسے پہچانا جائے کہ عاشق خیر الانام کون ہے تنقیص رسالت کا مرتکب کون ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سامنے امام احمد رضا کا تذکرہ چھیڑ دو اگر اس کا چہرہ کھل اٹھتا ہے تو جان لینا کہ یہ عاشق رسول ہے۔ اور اپنی جماعت کا ہے اس کے برعکس پژمردگی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں تو سمجھ لینا کہ یہ اغیار کی صفوں سے تعلق رکھتا ہے یہی کیفیت کسوٹی اور معیار عرب و عجم کے شیوخان زمین کا رہا۔ لاکھوں مدارس، و مساجد، مکاتب، و تحریکات کے دستورات و دستاویزات مسلک اعلیٰ حضرت سے مرتب ہیں جو اس کی معنویت وضرورت پر دال ہیں کل بھی اس کی ضرورت تھی آج مزید اس کی ضرورت واہمیت بڑھ چکی ہے۔ آج تحقیقات کے نام پر خوشگوار فضا کو مکدر کرنے کی سعی جاری ہے۔ اتحادی پلیٹ فارم پر بڑی چابکدستی سے شب خون مارا جارہا ہے۔ شخصیت کو منوانے کی مہم چل پڑی ہے۔ اسلاف کے دامن جلالت پر بر ملا تنقیدات کے بوچھار ہورہے ہیں ۔ دس سال پہلے جن مسائل کے جواز کا فتوی اغیار نے دیا تھا اس کے اثبات پر علمی توانائیاں صرف کیجا رہی ہیں۔ دشمنان اسلام سے موالات کے دروازے کھولے جارہے ہیں۔ یہودیت، و نصرانیت کو اہل کتاب ثابت کرنے کی سازش زوروں پر چل پڑی ہے صلح کلیت کا بازار گرم ہورہا ہے ۔ شیعیت، رافضیت، خارجیت، سلفیت، نجدیت، مودودیت ، دیوبندیت، تبلیغیت ، اور اہلسنت و جماعت کے درمیان امتیازات کو مٹانے کی ناپاک جرأت ہو رہی ہے۔ مرکزیت پر حملے ہورہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے مسلک اعلیٰ حضرت کی ضرورت نہیں ہے۔ مسلک اہلسنت کافی ہے۔ فاضل بریلوی کا استعمال نہ کیا جائے۔ امام احمد رضا کا تعارف ہم نے کرایا ہے۔ اتحاد مسالک وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مسلکی تشدد سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ اختلاف مسالک سے بالا تر ہونے کی حاجت ہے۔ تصاویر کے جواز پر فتاوے صادر کئے جارہے ہیں۔ بریلی مخالف ہواؤں کا تعاون کیا جارہا ہے۔ بے شمار مسائل لا کر ہر جماعت الجھانے اور اپنی بات منوانے پر بضد ہے۔ ایک کو دوسرے سے بدظن کرنے کی تدبیریں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ عموم بلویٰ مفہوم مخالف جیسے دلائل کے ذریعے جمہور فقہا کے اتفاقی مسائل سے روگردانی کی جارہی ہے۔الگ الگ ٹولی بنا کر اختلاف کے مہم کو تیز کیا جارہا ہے۔ ذاتیات پر یلغار کر کے مہتم بالشان شخصیات کی عظمت مجروح کی جارہی ہے۔ بے جاز بان و قلم کو استعمال کر کے اختلاف کو بڑھایا جارہا ہے۔ آزاد خیالی کی زمین ہموار کی جا رہی ہے۔ جب کہ اس وقت اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ دشمنان اسلام منظم ہو کرحملہ آور ہیں۔ عقائد باطلہ کے حاملین یکجا ہو چکے ہیں ۔ عالمی سطح پر اسلام کے خلاف سازشیں رچی جارہی ہیں۔ لیکن چند نا عاقبت اندیش اُن چیزوں سے بے خبر ہو کر اپنے نشیمن پر ہی پے در پے حملہ کر رہے ہیں ۔ آج ہم میں صدر الافاضل موجود نہیں ہیں کہ ان آزاد خیالوں کے منہ پر تالے لگا دیں، حافظ ملت نہیں ہیں کہ اپنے حدود سے باہر نکال دیں، شیر بیشہ اہلسنت نہیں ہیں۔ کہ ان کا آپریشن کر دیں۔ مجاہد ملت نہیں ہیں کہ ان کے مد مقابل سینہ سپر ہو جایں ۔ حجتہ الاسلام نہیں ہیں کہ ان کی بولتی بند کر دیں۔ محدث اعظم نہیں ہیں کہ اس لنگڑی تحقیق کا گلا گھونٹ دہں۔ مفتی اعظم نہیں ہیں کہ اپنی تدبیر سے اسے راہ راست پر لا کھڑا کریں۔ ملک العلماء نہیں ہیں۔ برہان ملت نہیں ہیں۔ امین شریعت محبوب ملت نہیں ہیں ۔ پاسبان ملت نہیں ہیں ۔ رئیس القلم نہیں ہیں۔ شارح بخاری نہیں ہیں ۔ کون اس کا سد باب کرےگا۔ اور سب کو ایک نقطہ اتحاد پر سمیٹ کر یکجا کرے گا۔ چند شخصیات موجود ہیں تو یہ بے لگام ہو کر دشمن کی حمایت میں سرگرم ہیں اور ہمارے خلاف ہی محاذ آرائی کر رہے ہیں۔ ان مرکز کو ہی نشانہ تنقید بنارہے ہیں۔ ایسے پرفتن دور میں نو جوان علماء کو سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ مرکزیت کے سایہ تلے اکھٹا ہو کر بڑی داناںٔی کے ساتھ پورے ہندوستان میں تحریک چلانے اور مرکزیت کی افادیت آفاقیت پر روشنی ڈال کر عوام و خواص کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک لڑی میں پرو کر اس کا زمام مرکز کے ہاتھوں دینے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی تنظیم تحریک کو تشکیل دینے کی حاجت ہے۔ جس کی ضلعی کمیٹی بھی ہو اسٹیٹس لیبل بھی ہو اور اس طرح ہر ایک کو دوسرے سے مربوط کر دیا جائے اور مرکز سے ہر ایک کا انسلاک اس طرح ہو کہ پورے ہندوستان کے اکابرین وہاں سمٹ کر متفقہ منتثورات تجویز کریں اور اسی کو پور ے ہندوستان کی کمیٹیوں کے حوالے کریں جس کی اشاعت و ترویج کی جائے اس طرح مرکز سے جو آواز بلند ہوگی وہ کامل طور پر پورے ہندوستان میں ہر جگہ سنی جائے گی۔ اور اسی پر عمل درآمد ہوگا۔ مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت منظم طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ عہد رضا میں جتنی اس کی ضروت تھی اس سے کہیں زیادہ اس کی ضرورت آج ہے۔ مسلک اعلیٰ حضرت کے نعرے کو عام کیا جائے۔ مسلک اعلیٰ حضرت کے مفاہیم سے لوگوں کو آشنا کرایا جائے۔ مسلک چار یا پانچ یا دو نہیں ہے۔ دلائل و براھین اور تاریخی پس منظر میں بتایا۔ جائے مراسم اہلسنت و عقائد اہلسنت کا ہی جدید نام مسلک اعلیٰ حضرت ہے۔ اس کا کامل شعور بخشا جائے۔ لفظ مسلک مجتہدین کے ساتھ خاص نہیں ہے اس کا انکشاف علمی طور پر کیا جائے۔ فروعات میں اختلاف ممکن ہے لیکن مسلک جمہور سے انحراف درست نہیں اس کا ادراک بھی کرایا جائے۔ اپنی ذاتی تحقیق پر عمل کرا کر انتشار کی کیفیت نہ پیدا کیجائے ۔ بلکہ اجتماعی واتفاقی مسائل پر خود عمل کریں اوروں کو بھی عمل کرنے کی ترغیب دیں تاکہ آپسی اتحاد و اتفاق برقرار رہے۔ ان تمام صورت حال کا بنظر عمیق جائزہ لینے کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ عہد رضا سے زیادہ عصر حاضر میں مسلک اعلیٰ حضرت کی ضرورت ہے اور اپنے تشخص کو برقرار رکھنے کی حاجت ہے۔
دعا گو ہوں کہ مولی تبارک وتعالیٰ نبی پاکﷺ کے صدقہ طفیل ہم سب کو مسلک اہلسنت والجماعت المعرف بہ مسلک اعلی حضرت پر مضبوطی کے ساتھ قاںٔم و داںٔم رکھے اور مسلک اعلی حضرت کا سچا پاسبان بنائے اور اسی پر خاتمہ بالخیر ہو آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلینﷺ
0 تبصرے