اندھیرے سے اجالے کی طرف

اندھیرے سے اُجالے کی طرف۔۔
تیسری قسط۔۔

از۔محمد قمرانجم قادری فیضی 
چیف ایڈیٹر مجلہ جام میر بلگرام شریف 

       ----------------------

 خانقاہ نظامیہ برکاتیہ اگیا شریف ضلع سنت کبیر نگر کا دینی ادبی علمی دعوتی سہ ماہی مجلہ پیام نظامی لہرولی سے میرا پہلا مضمون شامل اشاعت ہونے کے بعد میرے اندر لکھنے کا مزید جذبہ و حوصلہ پیدا ہوگیا۔
قلم و قرطاس سے خاصہ لگاؤ ہوگیا اور دل کو اطمینان و سکون میسر ہوا کہ اب میری بھی تحریریں ملک ہندوستان کے موقر رسائل وجرائد کے خوبصورت و جاذب نظر صفحات کی زینت بنیں گی۔ ماہنامہ سُنی دنیا بریلی شریف، سہ ماہی امام احمد رضا میگزین بندیشرپور، سہ ماہی ندائے حنفی اسکا بازار، وغیرہ میں مضامین بھیجنا شروع کیا، 
بزرگان دین، اساتذہ کرام بالخصوص شیخ المشائخ حضور سیدنا سرکار شعیب الاولیاء لقدرضی المولی عنہ کا فیض و کرم ہوا کہ اب سہ ماہی امام احمدرضا میگزین، ماہنامہ سُنی دنیا بریلی شریف، پیام حرم جمدا شاہی بستی، پیام نظامی لہرولی، میں ماہ در ماہ میری تحریریں شائع ہونے لگیں۔اخبارات میں بھی بھیجنا شروع کیا ۔

ایک بات اور واضح کردوں کہ آج سوشل میڈیا کا دور ہے ای میل وہاٹس اپ،فیس بک، ٹیلیگرام،وغیرہ ایپس موجود ہیں جن کے سبب  مضمون لکھنا اور شائع ہونے کے لئے ارسال کرنا بہت سہل ہوگیا ہے اب پیسے تو بلکل بھی خرچ نہیں ہوتے۔ عصر حاضر میں ہزاروں کی تعداد میں ویب سائٹس، نیوز پورٹل، اخبارات، ای مجلات، آن لائن شائع ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔
اور انہیں بھی مضامین کی ضرورت ہوتی ہے تو اب جس کو مضمون نگاری کی تھوڑی بہت سوجھ بوجھ ہو اُس کی بھی تحریریں شائع ہوجاتی ہیں، اور ایک ویب سائٹس سے شائع نہیں ہوگی تو دوسرے پر بھیج دی جاتی ہے۔ 

اس طرح سے قلمکاری/ مضمون نگاری کا سفر اب  پہلے کے بنسبت دشوار اور تکلیف دہ نہیں رہا ہے اُس وقت ڈاک سے بھیجنا ہوتا تھا، اور پہنچنے کے بعد فون سے رابطہ کرنا پڑتا تھا ۔اگر جواب آیا کہ ہاں مضمون موصول ہوگیا ہے تو دلی تسکین حاصل ہوتی تھی، ورنہ پھر ایک ہفتے بعد فون کرکے پوچھنا پڑتا تھا کہ میں نے ایک مضمون بھیجا تھا وہ آپ کو موصول ہوا کہ نہیں، اگر کہہ دیتے کہ مضمون مل گیا ہے تو پھر عرض کیا جاتا کہ حضور: آپ نظر کرم فرمائیں اور اس تحریر کو اپنے محبوب و پسندیدہ رسالے کے حسین و جمیل صفحات کی زینت بنائیں ۔ اُدھر سے جواب آتا کہ ٹھیک ہے ، دیکھتے ہیں اگر معیاری مضمون ہے اور لائق اشاعت ہے تو شامل مجلہ کرلیں گے ورنہ شائع کرنے سے معذرت چاہیں گے، اور کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ مضمون جہاں بھیجا جاتا تھا وہاں سے واپس بھی آجاتا تھا ۔
اس طرح کے جواب اکثر و بیشتر ملتے رہتے تھے ۔ 

 2011ء/  میں بھی ای میل،وہاٹس اپ، فیس بک، کورم، گوگل، رہا ہوگا مگر میرے پاس اس وقت اینڈرائڈ موبائل فون نہیں تھا۔ پھر میرے پَر کو اُڑان سے آگے بھی جانے کی تمنائیں بیدار ہونے لگیں اور میں رفتہ رفتہ آسمانِ صحافت پر قلابازیاں مارنے لگا اور مَیں دھیرے دھیرے اندھیرے سے اُجالے کی طرف بڑھنے لگا، میری بھی تحریریں ہندوستان کے موقر و ممتاز رسائل وجرائد اخبارات میں قابل اشاعت اور قابل مطالعہ ہوتی گئیں۔ پھر رفتہ رفتہ یہ سلسلہ تادم تحریر جاری و ساری ہے ۔۔

منزلیں کیا ہیں راستہ کیا ہے 
حوصلہ ہو تو فاصلہ کیا ہے 

قارئین کرام : حالت حاضرہ میں تحریر کی بہت ضرورت پیش آرہی ہے بہت سارے لوگ شکایت کرتے ہیں ہمیں لکھنا نہیں آتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ لکھنے سے لکھنا آتا ہے : بہت سارے لوگ لکھتے ضرور ہیں مگر ان کی تحریر میں جان نہیں رہتی ان کی تحریر معیاری نہیں ہوتی، اس کا سببِ واحد یہی ہے کہ مطالعہ کے بغیر لکھنا شروع کردیتے ہیں جبکہ مؤلف نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایک صفحہ لکھنا ہو تو دسوں صفحات کا مطالعہ کرنا بے حد ضروری ہے ۔آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی بھی مضمون خون جگر کے بغیر منظر عام نہیں ہو سکتا ،فکر و نظر کی توانائیاں راتوں کی بے خوابیاں ،کتابوں کی ورق گردانیاں اور جہد مسلسل کی برق رفتاریاں ،جب تک شامل نہیں ہوتی ،اس وقت تک نقش ناتمام رہتے ہیں ،اور حروف والفاظ پھیکے نظر آتے ہیں۔

ایک بات اور کہہ کے آگے گزر جانا چاہتا ہوں کہ پڑھائی کے زمانے میں مَیں کچھ مخصوص قلمکاروں، مصنفوں، ادیبوں، ناقدوں، محققوں، کے مضامین کا بہت ہی زیادہ عاشق تھا۔اور ان حضرات سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ جیسے کہ استاذ محترم علامہ مفتی رابع نورانی شاہ بدری مدظلہ العالی براؤں شریف، ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی جامعہ ہمدرد یونیورسٹی دہلی، پروفیسر اخترالواسع صاحب دہلی، علامہ ڈاکٹر فضل الرحمن شرر مصباحی علیہ الرحمہ ،علامہ مبارک حسین مصباحی جامعہ اشرفیہ مبارکپور، علامہ وارث جمال قادری ممبئی،  علامہ یسین اختر مصباحی علیہ الرحمہ، جناب شکیل حسن شمسی سبق ایڈیٹر روزنامہ انقلاب لکھنؤ، علامہ ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی گھوسی۔ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی پورنوی ، علامہ مفتی ڈاکٹر ساحل شہسرامی علیگ ،

(1)'عروج انجم'نامی کتاب میں ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی کی 2010ء/ تک علمی، دینی خدمات کا اجمالی تذکرہ ہے  مصنف 
ڈاکٹر امجد اقبال جامعہ فیضان اشفاق ناگور راجستھان، نے پروفیسر ڈاکٹر غلام یحیی انجم صاحب کی بسیط و عریض علمی ادبی خدمات کو یکجا کرکے قارئین اور محققین کے لئے قابل مطالعہ سرمایہ بنا دیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ 'انجم شناسوں' کے لئے کوزہ میں سمندر بھر دیا ہے
آپ کے حوالے سے دوسری کتاب '
عزیز جہاں پروفیسر غلام یحییٰ انجم مصباحی، زندگی اور کارنامے ۔تالیف ڈاکٹر محمد احمد نعیمی دہلی ہے مذکورہ دونوں کتابیں 
پڑھ کر اپنے اندرون ذہن و فکر میں بہتر سے بہتر قلمکار، مصنف، ادیب، صحافی، بننے کا جوش و جذبہ پیدا ہوا، اور لکھنے کی جانب مزید رجحان ہوا ۔اور اس کتاب کو پڑھنے کے بعد حاصل مطالعہ میں بہت کچھ سیکھنے، سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوئی،  آپ بھی مطالعہ کریں، پڑھیں، ان شاءاللہ عزوجل جو کتابوں سے خاصہ لگاؤ، کتابوں کو دوست رکھتے ہیں ان کی زندگی میں طوفان برپا نہ ہوجائے تو کہنا ۔

(2) علامہ وارث جمال قادری صاحب کی کتاب مستطاب ' بھیگی پلکوں کا بوجھ ' پڑھتے جائیں، تو رکنے کا دل نہیں کرتا ۔
اگر ایک دو صفحہ پڑھ لیا تو کتاب بند کرنے کو ذہن، وقلب تیار نہیں ہوگا ۔جب تک کہ ایک ہی نشست میں ختم نہ ہوجائے۔ اس ہُنر و مَلکہ کو قلمکاری کہیں یا لفظوں کی جادوگری، قاری اردو زبان وادب کی دلچسپ جاذبیت ، اور واقعات کی صحراؤں میں گُم ہوجاتا ہے اُسے پڑھنے میں ایسے منہمک ہوجاتا ہے کہ دنیا والوں کی کوئی خبر نہیں ہوتی ہے بالفاظ دیگر ان مصنفین کی تحریریں اور کتابوں کی سحر انگیزی اتنی زبردست اور حیرت انگیز ہے کہ پوچھو ہی مت ۔آپ اگر ابھی تک مذکورہ کتابیں  نہ پڑھیں ہوں تودیر نہ کریں،یقیناََ یہ ایسی کتابیں ہیں جو جدید لکھنے والوں کو صحیح راستہ دکھاتی ہیں اور ان کی تحریریں ہم جیسے نئے لکھاریوں کے لئے مشعل راہ بھی ہوتی ہیں ۔ مذکورہ حضرات ادیب، نقاد، محقق، شاعر، عالم، حکیم، سب تھے ۔

اردو زبان وادب کے ایک بہت بڑے قلمکار/ کئی کتابوں کے مصنف مضمون نگاری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 

اظہار و بیان کی صلاحیت اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔  اظہار کے بنیادی ذرائع دو ہیں :(1)زبان یعنی تقریر(2) قلم یعنی تحریر: تقریر کے مقابلے میں تحریر کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس لئے کہ  وہ زیادہ مستند ہوتی ہے اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔مخاطب کو سہولت ہوتی ہے کہ جب چاہے اس سے استفادہ کرے نیز تحریر پر غور و فکر کا موقع زیادہ ملتا ہے۔  آسمانی کتابیں تحریری شکل میں دی گئیں۔  قرآن کریم میں بھی تحریر کو اہمیت دی گئی ہے اہلسنّت والجماعت  اکابر نے بھی تحریر کی طرف خاطر خواہ توجہ دی ہے۔

تحریر و تصنیف کا فن۔ خداداد یا اکتسابی؟
خطابت اور انشاء پردازی خداداد صلاحتیں ہیں۔ عربی کی مشہور مثل ہے: لیست النائحۃ کالثکلی(جس عورت کو کسی میت پر رونے کے لیے کرایے پربلایا گیا ہو، وہ اس طرح رو ہی نہیں سکتی جس طرح وہ عورت روتی ہے جس کا اپنا بچہ مر گیا ہو۔ )  لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مشق و مزاولت سے ہر صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے اور ہر فن میں مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔

تحریر و تصنیف سے قبل چند بنیادی باتیں :

  مقصد صالح اور نیت پاکیزہ رکھیں، جو کچھ لکھیں گے اس پر اللہ تعالی اجر سے نوازے گا۔ لکھنے کا آغاز کرنے سے قبل موضوع متعین کریں۔ اس موضوع پر اب تک جتنا کچھ لکھ جا چکا ہے اس کا مطالعہ کیجیے۔ جدید اصطلاح میں اسے[Literature Survey] کہتے ہیں۔ لکھنے سے قبل معلومات جمع کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ وہ مستند ہوں۔ جو کچھ لکھنا ہے اس کا پہلے سے ایک خاکہ(Synopsis)تیار کر لیں، کہ کس ترتیب سے مضمون لکھنا ہے؟

 تحریر کا مختصر ہونا پسندیدہ ہے:خیرالکلام ما قلّ و دلّ( بہترین کلام وہ ہے جس میں الفاظ کم ہوں مگر مفہوم واضح ہو۔ )لیکن اگر 
مضمون بڑا ہو توذیلی عناوین (Sub-Headings) ضرور شامل کریں۔
تمہید مختصر رکھیں۔ وہ ایسی ہو کہ قاری آگے پڑھنے پر آمادہ ہو جائے۔ مضمون کا خاتمہ ’حاصل بحث ‘  پر کریں۔ ایک بات کو ایک جگہ ہی لکھئے۔ تکرار سے بچیں۔ حوالوں کا اہتمام کیجیے۔ تحریر مکمل ہو جانے کے بعد اس پر نظر ثانی ضرور کیجیے۔ اپنے ناقد خود  بنیں۔

مؤثر تحریر کے لئے ضروری امور:

 لکھنے کا آغاز کرنے سے قبل افکار کو ذہن میں صاف کیجیے، پھر انھیں ترتیب وار کاغذ پر منتقل کیجیے۔افکار میں ربط و تسلسل کو ملحوظ رکھیے۔ مناسب اور موزوں الفاظ کاانتخاب کریں۔ مشکل الفاظ سے پرہیز کیجیے۔ مترادفات کا استعمال کم سے کم کیجیے۔

صحتِ الفاظ پر توجہ دیجیے: املا، تذکیر و تانیث، فعل فاعل، واحد جمع ،جملوں کی بناوٹ درست رکھیے۔ جملے چھوٹے چھوٹے استعمال کیجیے۔ مثالوں اور دلیلوں سے بات کیجیے۔

اسلوب اندازِ پیشکش کو بہتر بنانے کا طریقہ    
یہ ہے کہ مستند اہلِ زبان ادیبوں ،قلمکاروں کی تصنیفات کا برابر مطالعہ کرتے رہیے۔۔

جو کچھ لکھوں قلم سے اسے تووقار دے
 جوکچھ کہوں زبان سے دلوں میں اتار دے۔۔۔

جاری۔۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کے لئے تھوڑا انتظار کریں ۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے