ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
کمال احمد علیمی
استاد دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی بستی
میرے عزیز!
خدمت دین کے بہت سارے شعبے ہیں مگر آج علماے اہل سنت سب سے زیادہ نفع بخش،مرغوب اور آسان میدان، مروجہ خطابت ہی کو سمجھتے ہیں، یہاں نفع عاجل بھی ہے، چمک دمک بھی ہے،آو بھگت بھی ہے، سستی شہرت بھی ہے اور بظاہر عزت بھی.
نئی نسل جس تیزی کے ساتھ اس "بحرالکاہل" میں غرق ہوتی جا رہی ہے اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں ہماری جماعت(خدا نہ کرے) ژرف نگاہ محققین، زرنگار مصنفین، گہر بار مدرسین اور شیریں مقال مخلص مبلغین سے محروم ہوجائے گی.
آج علماے اہل سنت کے یہاں کامیابی کا مطلب منبر نور پر کامرانی کا علم نصب کرنا ہے،ایک صاحب نےمجھےاپنی ڈائری دکھاتے ہوئے فرمایا کہ مولانا! لوگ میری حیثیت سمجھتے نہیں، دیکھیے رمضان المبارک چھوڑ کر پورے سال میری ایک بھی تاریخ خالی نہیں.
یہ افسوس ناک صورت حال ہے، ہمارے وہ نوجوان علما جو تحقیق و تدریس کے شہنشاہ ہیں آج اس ماحول سے احساس کم تری کا شکار ہو رہے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اس جماعت میں ہمارا کیا مصرف ہے،ان کا حوصلہ ٹوٹتا ہے، خواب بکھرتے ہیں،پھر وہ بھی زبردستی خطیب بننے کی کوشش کرتے ہیں جس سے براہ راست جماعت کا نقصان ہوتا ہے.
یہ سچ ہے کچھ لوگ تدریس، تقریر اور تصنیف تینوں شعبوں میں فٹ بیٹھتے ہیں، ایسے لوگ بہت کم ہیں،اللہ تعالیٰ نے جس کو جو صلاحیت دی ہے اس کے مطابق دین کا کام کرنا چاہیے، ضروری نہیں کہ ہم تینوں میدانوں میں کامیابی کا علم لہرائیں.
لاریب خطابت تبلیغ دین کا بہت بڑا ذریعہ ہے، تبلیغ دین کا آغاز اسی سے ہوا، مگر آج جس طرح سے بہت سارے لائق افراد اس کو ایک پروفیشنل فن سمجھ کر، "پروگرامی سیٹنگ" کے لیے شب وروز جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں اس کی وجہ سے مذہبی خطابت کی روح تقریباً فنا ہونے کو ہے،ساتھ ہی حصول زر کی لالچ اس لائن کے تقدس کو پامال بھی کر رہی ہے،اکثر پروگرامی شخصیات" نذرانے" نہیں بلکہ "محنتانے" پر تاریخ دیتی ہیں.
الحمد للہ آج بھی کچھ مخلص افراد ہیں جو بے لوث وریا محض اخلاص کے ساتھ اس لائن کی عظمت کہنہ کے محافظ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو سلامت رکھے.
(ایک عزیز کی مایوس کن تحریر پر دل کے جذبات)
0 تبصرے