آزادئ ہند میں مدارس کا کردار اور موجودہ حکومت کا رویہ

"آزادئ ہند میں مدارس کا کردار اور موجودہ حکومت کا رویہ"



ملک و ملت کی فلاح و بہبودی، سیاست و معیشت کی عمدہ نظم و نسق کی درست گی ،معاشرتی اقدار کی بلندی اور فروغ اخلاقیات و انسانیت کے لیے مدارس اسلامیہ نے ہمیشہ لائق و فائق رہنمائی کرتے ہوۓ نمایاں کردار اداکیاہے جو صاحبان حل و عقد و اہل فہم و فراست سے مخفی و پوشیدہ نہیں،اس کی برکتیں باران رحمت کی طرح آج بھی بلا تفرق و تفرد اقوام عالم کے ویران و بنجر صحراۓ قلب کو سیراب کررہی ہیں اور اس کا نور وحشت زدہ وادئ افکاروخیالات کو روشنی فراہم کرکے اسے درخشاں کررہاہے اور اس کی شائستگی و اعلی حسن کردار متشددین و متعصبین کے خزاں رسیدہ طبائع و اقلاب کو مسخر کررہےہیں اس کی اہمیت و افادیت سادہ لوح و حق پسند افراد پر روز روشن کی طرح عیاں،بیاں اور واضح و درخشاں ہے۔

تبھی تو جب جب اسلام کے شعائر و علامات اور اس کے بنیادی اصولوں کو مٹانے و مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں کی گئیں اور مسلمانوں کے تفردات و تشخصات ختم کرنے کا عزم پیہم کیا گیا تو سب سے پہلے انہیں مدارس کو ہدف بنایا گیا اور ان کے سربراہان و سراخیل کو زر و جواہرات دے کر خریدنے کی کوششیں کی گئیں اور تقاضاۓ حال سے بڑھ کر ان کی مالی مدد کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ اعلی مناصب اور حکومتی وظائف و مراعات کا بھی لالچ دیا گیا تاکہ علماء کی حیثیت گھٹائی جاسکے اور مدارس پر جو مسلمانوں کا اعتماد و بھروسہ ہے اسے بھی ختم کیاجاۓ،لیکں واہ رے مدارس اسلامیہ تیری عظمتوں،رفعتوں اور جذبہ و ہمت کو سلام کہ تونے ان مکار و ظالم اور سفاک فرنگیوں کی پیش کش کو مسترد کردیا اور مادر وطن کی ناموس و آبرو کے تحفظ و بقا کے لیے ان سے نبرد آزمائی و محاذ آرائی کا سلسلہ بدستور جاری رکھا یہاں تک کہ گلستان مادر وطن میں آزادی کی بہار جانفزاں کی صداۓ رحمت گونج گئی۔
اور اسی طرح جن مسلم ممالک کی سیاست و معیشت کو کمزور کرنا اور شہریوں کو غلام بنانا ہوا تو سب سے پہلے وہاں کے مدارس پر انہدامی کاروائی کی گئی اور سرکردہ علماء حق کو زندان کے حوالے کرکے عبرت ناک سزائیں دی گئیں ،ان کے املاک کو ضبط کرلیا گیا اور ان کے جبہ علمیت و دستار فضیلت کو سربازار نیلام کیا گیا تاکہ ملک و ملت ان کے عبرت ناک انجام کو دیکھ کر پژمردہ و بژدل ہوجائیں،لیکن انہیں کیا معلوم کہ یہ وہ مدارس اسلامیہ ہیں جو اپنے دینی و ملی اور ملکی تحفظات و استحکام اور بقاۓ تشخصات کے لیے عزیز ترین جانوں کی بازی لگانےاور سروں کا نذرانہ پیش کرنے میں سرمو پیچھے نہیں ہٹے ہیں اور "ان شاءاللہ تعالیٰ"یہ سلسلہ صبح قیامت تک جاری رہےگا۔

"آزادئ ہند"میں بھی"مدارس اسلامیہ"نے جو انقلابی اور ناقابل فراموش کردار نبھایاہے وہ تاریخ کے سینے پر اس طرح رقم و ثبت ہے کہ اسے دنیا کی ظالم و جابرطاقتیں اور اقتدار کے نشے میں چور حکمران خواہی نخواہی  مٹانے سے عاجز و قاصر رہیں گے"ان شاءاللہ تعالیٰ"

1857ءکی تاریخ ساز عظیم جنگ آزادی جسے علماء حق اہل سنت وجماعت نے مادر وطن پہ قابض فرنگیوں (انگریزوں)کی بالا دستی سے آزاد کرانے کے لیے لڑی ہے اور اپنی عزیز ترین جانوں کا بیش بہا و قیمتی نذرانہ دیاہے کیا اسے بھلایا جاسکتا ہے؟

نہیں ہرگز نہیں!یاد کیجیے مفتی صدرالدین دہلوی ،مفتی عنایت اللہ،مفتی سید کفایت اللہ کافی،مولانا حسرت موہانی،اور ان جیسے ہزاروں جاں نثار و جانباز اور مجاہدین آزادی کے  علماء اہل سنت کو جنہوں نے فرنگیوں کے خلاف جنگ آزادی کا انقلابی بگل بجایا اور ان کی ہلاکت و تباہی کا صور پھونکا اور نتیجتا ظالم و سفاک فرنگیوں کے عتاب کا شکار ہوکر اور درد ناک سزائیں جھیل کر شہید ہوۓ (رحمھم اللہ)۔

اور یاد کیجیے! محرک جنگ ازادی،امیر المجاہدین ،امام المنطق حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی شہید رحمہ اللہ کو جنہوں نے فرنگیوں کے مظالم کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ آبروۓ مادر وطن کے تحفظ اور اس کی مستقل آزادی و بہار جاوداں کی بقا کے لیے فرنگیوں کو غاصب و ظالم اور غیر ملکی قرار دے کر فتوی جہاد صادر فرمایا جس کی تائید و توثیق ہزاروں علماءحق نے فرمائی اس کا اثر یہ ہوا کہ پورے بھارت میں انقلاب زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے جس کی گونج سے فرنگیوں کی راتوں کی نیند و دن کے سکون خاک میں مل گئے اور ملک کے کونے کونے کے چھوٹے بڑے علما فرنگیوں کے خلاف سر بہ کف ہوکر صف آرا ہوگئے،فتوئ جہاد کے حیرت انگیز اثرات کو دیکھتے ہوئے فرنگیوں نے "علامہ"سے فتوئ جہاد واپس لینے کی درخواست پیش کی اور ساتھ ہی ساتھ اعلی سرکاری عہدہ و مراعات دینے کی پیش کش بھی کی لیکن اس مرد مجاہد (جو سچا مادر وطن کا سپاہی و پاسبان تھا)نے ان دنیوی پیش کش کو مسترد کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا ہم نے منصب داری و حصول مراعات کے لیے فتوی جاری نہیں کیا بلکہ یہ ہمارا ملکی و دینی حق اور ذمہ داری ہے جسے ہم آخری سانس تک نبھاتے رہیں گے،
آخرش اسی جرم کے پاداش میں لٹیرے فرنگیوں نے آپ کو کالا پانی کی سخت سزا سنائی اور صعوبت و اذیت کی ناقابل برداشت تکالیف سہتے ہوۓ جام شہادت نوش فرمایا۔
لیکن جو آزادی کی چنگاڑی ان مجاہدین مادر وطن نےسلگائی تھی وہ ان کی قربانیوں کی گرماہٹ سے شعلہ بن گئی جسے بجھاپانا فرنگیوں کے لیے ناگزیر ثابت ہوا اور 15/اگست 1947ءکو ملک عزیز دوسو سالہ غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہوا اور پھر گلشن میں فصل نو بہاری آئی۔

آر ایس ایس کے ناپاک ایجینڈہ و ایماء پر برسر اقتدار موجودہ بی جے پی حکومت آج انہیں مدارس اسلامیہ پر غاصبانہ نیت اور ظلمی پنجہ گڑارہی ہے، نت نئے انداز اور بےایمانہ طریقے سے شکنجہ کشی کررہی ہے اور اس کے وجود کو ختم کرنے کی آمادگی کا اعلان و اظہار مختلف صوبوں کے شرانگیز حکمرانوں و کارندوں کے ذریعے ہو بھی رہاہے،ذلیل ،بکاؤ گودی میڈیا کی جانب دار رپوٹینگ بھی انہیں ناپاک سازشوں کا اہم حصہ ہے،الزام و بہتان کے ذریعے مدارس کی انہدامی کاروائی اور گلابی حیلوں بہانوں کے ذریعہ قدیم تعلیمی نظام کو سرے سے ختم کرنے اور عصری تعلیم کو لاگو کرکے مدارس اسلامیہ کے معیار و اقدار گھٹانے و ختم کرنے کی بھی ممکنہ کوشش ہے ،کاغذات کی تصحیح،تعداد طلبہ و اساتذہ، قیام و طعام کے بندوبست،آمد و خرچ کی تفصیل اور اس کے علاوہ مختلف اقسام کی سرکاری احکامات پر عملدرآمد گی وغیرہ مدارس اسلامیہ کی رگ جان پر نوک خنجر رکھنے کے مترادف ہےاور یہ ملکی سطح پر مدارس اسلامیہ کے ساتھ ظالمانہ و غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے جو قابل افسوس و قلق اور لائق مذمت ہے۔

شاید ان کا تاریخی و جغرافیائی مطالعہ ( جو آزادئ ہند کے حوالے سے ہے) تیز ہوگیا ہے کہ یہی وہ مدارس ہیں جنہوں نے اپنے مجاہدانہ کردار اور حیرت انگیز قوت مدافعت کے ذریعے ظالم انگریزوں کے جمے جماۓ قدم کو اکھاڑ پھینکا تھا اور آزادی کی صبح کو طلوع کی دعوت دی تھی،کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں بھی وہی ڈر ستارہا ہو کہ اگر مدارس ان کے خلاف نبرد آزما ہوگئے تو ان کے ظلم کا قلعہ قمع اور طلسماتی محل زمیں دوز نہ ہوجاۓ اور  ظالم و غدار فرنگیوں کی طرح خجالت و ندامت سے منہ چھپانے کے لیے خاک وطن کا کوئی خطہ میسر نہ آۓ اور بھاگنے کی ساری راہیں مسدود ہوجائیں۔۔

یہ اسلام دشمن طاقتیں خوب  جانتی ہیں کہ جب تک یہ مدارس اسلاف کے مشن کے پاس دار ہیں تب تک اسلامی تفرد و تشخص اور دین کے بنیادی اصولوں کو مٹاپانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،بایں سبب وہ اپنے معہود و قرار داد پر اقتدار کے نشے میں دھت ہوکر اسلام دشمن اقدام کرنے میں تامل و تردد سے گریزاں ہیں۔

ایسے کسم پرسی و ناگزیر حالات میں مدارس کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں کہ اپنے قدیم روایات میں ممکنہ تبدیلی کریں،دینیات کے ساتھ ساتھ عصریات کا التزام کریں،نظام تعلیم معیار و مستحکم بنائیں،مدارس میں در آئی فضول و ناجائز تہذیب و ثقافت اور رشوت و حق تلفی جیسی دین دشمن و انسانیت سوز کردار و عمل کا انسداد کریں،اپنے قیام کے مقصود و مطلوب پر کام کریں،بے دینی و غیر مہذب افعال کو خیرآباد کہیں،کبر و منی اور تفرق و تفوق کے جذبہ رزیلہ سے فکر و طبیعت کو پاکیزگی بخشیں،توہم و شخصیت پرستی اور باہمی تصادم و تفاخر سے گریزاں ہوں،اخلاص و اخلاق اور صدق مقال کو زندگی کا لازمی حصہ بنائیں،تعلیم و تدریس میں سنجیدگی و پائندگی پیدا کریں کیوں کہ یہی مدارس کی بنیادی ذمہ داریاں ہیں۔
ممکن ہے کہ مدارس اسلامیہ پر جو ظلمت و وحشت اور دہشت و خوف کی فضا چھائی ہے وہ اپنے مقصود پر قائم نہ رہنے کے سبب ہو۔۔


اپنے کعبے کی حفاظت ہمیں کرنی ہوگی
اب ابابیل کا لشکر نہیں آنے والا۔۔


عبدالحفیظ قادری علیمی ممبئی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے