حضور صلی اللہ علیہ وسلم عبدیت و رسالت میں اوّل بھی ہیں اور آخر بھی

حضور ﷺ عبدیت و رسالت میں اوّل بھی ہیں اور آخر بھی۔


 آصف جمیل امجدی
      (شانِ سدھارتھ)

 انسان کی پیدائش اور دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ تعالی نے پیغمبروں کی ارواح سے حضورﷺ کی اطاعت اور
 نصرت کا وعدہ لیا تھا اور عہد و پیماں باندھا تھا۔ ظاہر ہے یہ عہد ہر نبی کو یاد تھا اور انہوں نے اپنے امتیوں کو بتایا تھا اس لئے ہر نبی نے آپ کا ذکر کیا اور ہر امت میں آنے والے بزرگوں نے آپ کا ذکر کیا اس سلسلے میں تاریخ سے ایک انوکھا واقعہ پیش کرتا ہوں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضورﷺ عبدیت و رسالت میں اول بھی ہیں اور آخر بھی ۔
 یہ واقعہ عہد شاہجہانی کے ایک مورخ "شیخ فرید بھکری نے اپنی کتاب "ذخیرة الخوانین" میں پیش کیا ہے ۔ یہ واقعہ 1060ھ مطابق 1649 ء کا ہے۔ اس کے راوی گورنر لاہور قبیح خان کے عابد وزاہد برادر زادہ محمد سعید نے جون پور کے تھانیدار نواب سبکتگین سے بیان کیا ہے جو ان کا چشم دید ہے یہاں ان کے بیان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔(شیخ فرید بھکری: ذخیرتہ الخوانین، مطبوعہ کراچی)
 "علاقہ جون پور قلیج خاں کی جاگیر میں تھا 1060ھ بمطابق 1649ء میں انہوں نے یہاں ایک عالی شان عمارت بنانا چاہی کام شروع کر دیا گیا، کھودتے کھودتے زمین میں گنبد کا کلس نمودار ہوا کام اس لئے روک دیا گیا کہ شاید یہاں کوئی بڑا خزانہ ہے، قلیج محمد خاں کو اطلاع دی گئی متعلقہ افسران کے ساتھ وہ بھی آگئے اور یہاں دس روز قیام کیا ان کی موجودگی میں پھر کھدائی شروع ہوئی پورا گنبد نکل آیا مٹی صاف کی گئی تو لوہے کا بڑا دروازہ نظر آیا جس میں ایک وزنی قفل لگا ہوا تھا۔ قفل تو ڑا گیا اور دروازہ کھولا گیا۔ قلیج محمد خاں جون پور کے اکابرین کے ساتھ گنبد میں داخل ہوئے ، کیا دیکھتے ہیں گنبد کے بیچوں بیچ ایک بلند قامت مگر کمزور و ناتواں بزرگ، جن کی داڑھی اور بھویں بلکل سفید مثل سَن ہو چکی تھیں۔  مگر ہڈیوں کی مالا معلوم ہوتے تھے ، جوگیوں کی طرح آسن مارے اور سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ دروازے کی کھڑکھڑاہٹ اور ہجوم کی بھنبھناہٹ سے اس طرح سر اٹھایا جیسے گہری نیند سے جاگے ہوں۔ ہجوم کو دیکھ کر بزرگ نے چند چونکا دینے والے سوالات کئے ۔ جن کا تعلق زمانہ ماقبل تاریخ سے معلوم ہوتا ہے یہ سوالات و جوابات آپ بھی سنیں۔

 سوال:  اوتار رام چندر آ گیا ؟
 جواب: ہاں آ گیا۔

 سوال: سیتا جس کو راون لے بھاگا تھا رام چندر کے ہاتھ آگئی؟ 
جواب: جی ہاں ۔ آگئی۔ 

سوال: اوتار سری کرشن متھرا میں ظاہر ہو گیا ؟
جواب: چار ہزار برس گزرے وہ آیا بھی اور گزر بھی گیا۔

 سوال: حضرت محمد ﷺخاتم النبین عرب میں مبعوث ہو گئے؟ 
جواب: ہزار سال گزر چکے ہیں کہ آپ تمام مذاہب کو منسوخ فرما کر دین مطہر نبوی کو رواج دے کر اس دنیا سے تشریف لے گئے۔

سوال: گنگا کا پانی چل رہا ہے؟
 جواب: ایک عالم کے لئے عزت بخش ہے۔

 بزرگ اچھا! مجھے باہر نکالو۔"

 چنانچہ ان بزرگ کو باہر نکال کر خیمہ میں رکھا گیا اور وہ دین فطرت اسلام کے مطابق نماز ادا کرتے رہے اور عبادت و ریاضت میں مشغول رہے۔ یہ بزرگ انسانوں کی طرح کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے تھے۔ چھ ماہ بعد ان کا انتقال ہو گیا اور تجہیز و تکفین کے بعد ان کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
 ان بزرگ کے سوالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہزاروں سال سے اس گنبد میں مقیم تھے خود گنبد کا تہہ بہ تہ مٹی میں دھنس جانا بھی اس کی تصدیق کرتا ہے کہ اس کو بنے ہوئے۔
مدت ہو چکی تھی اور ایک زمانہ گزر چکا تھا۔ اس تاریخی واقعے کا راوی کہتا ہے کہ مرزا سعید کا کہنا ہے کہ اس نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے اور راوی یعنی مورخ کہتا ہے کہ مرزا سعید ایسا سچا انسان ہے جس کی بات کو جھوٹا کہنا میرے نزدیک گناہ کبیرہ ہے۔(دین فطرت ص 49)

 علامہ اقبال نے سچ کہا تھا۔

 عقل بے مایہ امامت کی سزا وار نہیں
 رہبر ہو ظن و تخمیں تو زبوں کار حیات

[ مضمون نگار روزنامہ شانِ سدھارتھ کے صحافی ہیں]

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے