اردو ادب میں تحقیق کا بدلتا منظرنامہ

 اردو ادب میں تحقیق کا بدلتا منظرنامہ 

 پروفیسر عبدُ البرکات

صدر شعبۂ اردو

ایم۔پی۔ایس۔ سائنس کالج، مظفرپور(بہار)

Mob. : 8210281400


تحقیق؛ اپنی معنوی جامعیت کی وجہ سے مقبولِ عام ہے۔یہ عربی کا لفظ ہے جس کے لیے تفتیش، صداقت، سچائی، یقینی، تلاش، جستجو، جیسے الفاظ بطور معنی؛لغت میں درج ہیں۔اس تناظر میں تحقیق کے عمرانیاتی، تاریخی اور علمی دائرۂ کار میں وسعت و گیرائی آجاتی ہے۔عمرانیاتی زندگی کے ابتدائی دور سے ہی تحقیقی کاوشوں کے تعلق سے جانکاری ملتی ہے۔گرچہ مختلف ادوار میں تحقیق کے لیے مختلف النوع طریقۂ کار اختیار کیا گیا،کیوںکہ قدرت نے ذہنِ انسانی میں جستجو کی صلاحیت ودیعت کی ہے۔لہٰذا دریافت و جستجو؛ انسانی زندگی کا لازمہ قرار پاتا ہے۔اس لیے بچہ ، ماںکی گود سے ہی اپنے ہاتھ پاؤں اور چہرے پر اُبھرے مسکان یا بلکاری سے متوجہ کرلیتاہے جس سے اس کی خواہش ظاہر ہوتی ہے اور ضروریاتِ زندگی یعنی دودھ وغیرہ بطورِ غذا حصول کرتا ہے پھر جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے،اس کی دائرۂ تلاش اور طریقۂ انداز بھی وسیع اور معنی خیز ہوتے جاتے ہیں۔گویا انسان؛ مہد سے لحد تک اپنی ذہنی اور خلقی صلاحیت کی مناسبت سے تلاشِ صداقت میں غلطاں و پیچاں رہتا ہے۔وہ کبھی حالات اور وقت کے تابع ہوجاتاہے اور کبھی اپنے اشتقاق سے واقعات، معلومات اور حالات کے رُخ کو موڑ دیتا ہے۔اس تناظر میں تحقیقی سفر کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔

(۱) ابتدائی دَور کی تحقیق

(۲) ادب میں تحقیق کا دورِ عروج

(۳) ادبی تحقیق میں تنقیدی روِش

ابتدائی دَور کی تحقیق:۔

زمانۂ قدیم کی وہ تحریریں جن کو ’پلوٹارک‘ نے یکجا کردیا، اس کا اردو میں ترجمہ ’’مشاہیرِ یونان و روما‘‘ کے نام سے ہوا ، جو دو جلدوں میں طبع ہوا ہے۔ اس کے مطالعہ سے انکشاف ہوتا ہے کہ ابتداء ً انسانی فکر اور دانشوری نے منطق اور حکمت کو اپنی ذہنی ارتکاز کا محور بنایا بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ابتدائی دَور کے مفکرین نے غور و فکر سے جو بھی نتیجہ اخذ کیا اس کو حکمت اور منطق سے معنون کیا۔اس تعلق سے بڑے بڑے مفکرین کے نام اور کارنامے قابلِ ذکر ہیں اور آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ مثلاً حکیم جالینوس، حکیم بطلیموس، حکیم لقمان، فیثا غورث، سقراط، بقراط، افلاطون، ارسطو، پلوٹارک وغیرہ کے علمی کارنامے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ انیسویں صدی آتے آتے تحقیق کی اہمیت اور افادیت نے دانشوروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ نتیجتاً افکار و نظریات کو تجربہ گاہوں سے روبرو کرایا جانے لگا جس سے تحقیقی رویّہ یکسر بدل گیا۔سائنسی ایجادات اور تعلیم گاہوں میں تکنیکی استعمال نے معاشرتی زندگی میں انقلاب برپاکردیا۔گلیلیو اور اس طرح کے دوسرے سائنسی محققین نے زمانۂ قدیم کے بہت سارے تصورات،افکار اور نظریاتی نکات پر سوالیہ نشان لگادیا جس سے منطق و حکمت کے دھارے یکسر پلٹ گئے۔ تاہم ان کے تحقیقی حقائق کو اعتماد حاصل کرنے میں سیکڑوں برس لگ گئے۔ کیوںکہ بیسویں صدی کے ساتویں دہائی تک مذکورہ حکماء و مفکرین کے تصورات کے دبدبے عوام الناس پر برقرار تھے۔میرے سے بڑی عمر یا میری عمر کے لوگ جو گاؤں میں بستے تھے انھیں یاد ہوگا۔ بچپن میں مکتب کی تعلیم کے دوران میں نے پڑھا تھا کہ زمین طشتری کی طرح ہے اور سورج زمین کے چاروں طرف گھومتا ہے۔پھر انھیں دنوں ہوا کہ زمین؛ گیند کی طرح گول ہے اور سورج نہیں؛ زمین ہی سورج کے چاروں طرف گھومتی ہے۔دراصل اس وقت ذرائع ابلاغ خصوصاً گاؤں میں محدود تھے اور نئی کتاب کی اشاعت تک پرانے نظریات پر انحصار رہتا تھا۔ طلبا سے عوام الناس تک کو یقین دِلانا آسان نہیں تھا کہ زمین گھومتی ہے۔اس پر اسکول سے گاؤں، ٹولہ محلہ ہر جگہ مباحثے ہوتے۔ لوگوںکو فکر لاحق تھی کہ زمین کی گردش سے اس پرآباد مخلوقات کیسے مستحکم ہوسکتی ہیں؟؟ اس امر کو سمجھانے کے لیے بلیک بورڈ سے مٹی کے گھڑے اور گلوب کا استعمال کیا جاتا کہ زمین کی رفتار اور اس کی مقناطیسی کشش کے سبب کوئی شے زمین سے لڑھک کر باہر نہیں جاسکتی۔ لہٰذا اس نظامِ قدرت کی افہام و تفہیم کے لیے الہامی صحائف کا مطالعہ ناگزیر ہے۔پھر ثابت ہوا کہ زمین گیند کی طرح نہیں بلکہ ’نارنگی‘ کی طرح ہے جس کے اُتری اور دکنی سرے نارنگی کی طرح چپٹے ہیں۔ موجودہ تحقیق نے ثابت کیاہے کہ خلا کے تمام ستارے بشمول سورج اور چاند اپنے اپنے مدار پر گردش کرتے ہیں۔اس کی رفتار کیاہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔حالاں کہ ’شمس و قمر‘ کو بھی اپنے محور پر گردش کی خبر قدیمی ہے۔ اس پر فلکیات کے ماہرین نے نویں دسویں صدی ہی سے کام شروع کردیا تھا۔ غالباً طباعت و اشاعت کا نظم نہیں ہونے کی وجہ سے سولہویں صدی میں زمین کی گردش کا نظریہ عام ہوا لیکن بہت ساری قدیمی صداقتیں ابھی بھی پردۂ ظلمت میں ہیں جس کی تحقیقِ جدید متقاضی ہے۔بہرکیف! گلیلیو اور اس جیسے موجد سائنس دانوں کے سولہویں صدی میں فلکیات، طبعیات اور ریاضیات میں ان کے تحقیقاتی نظریات عام ہوئے اور اس کی قبولیت اور بعض نکات سے انحراف کے ساتھ بیسویں صدی میں اس پر اعتبار حاصل ہوا۔

ادب میں تحقیق کا دورِ عروج:۔

تحقیق؛ صداقت آشنائی کا آئینہ ہے اس لیے تحقیقی روِش نے رفتہ رفتہ معاشرتی زندگی کے تمام شعبوںکو اپنے دائرۂ عمل میں کرلیا۔ اس کی افادیت کے مدِنظر ہر فرد و بشر تحقیق کا گرویدہ ہوگیا۔ اس طرح بیسویں صدی تک تحقیقی طریقۂ عمل کو،عروج حاصل ہوگیا۔ادب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا۔ ادبا، شعرا اور فنکاروںکی تخلیقات اور ان کے تعلق سے معلومات کو آئینۂ صداقت سے روبرو کیا جانے لگا، نظریات وضع ہونے لگے۔ نتیجتاً شعر و ادب کو پرکھنے اور تاریخی تناظر میں اس کا جائزہ لینے کا عمل شروع ہوگیا۔ادبی کارنامے کے معیار اور اس کے خالق کی تاریخی نوعیت کو پرکھنے کے لیے پیمانے بنائے گئے۔ سندی تحقیق کے لیے بھی جامعات میں، اہتمام کیاگیا۔کتابوں کی اشاعت نے ادبی تحقیق کے کام کو سہل بنادیا۔معلومات کی بنیاد پر غور و فکر سے واضح ہوتا ہے کہ جرمنی میں سب سے پہلے تحقیقی مقالے کے لیے پی ایچ ۔ڈی کی سند دینے کا عمل شروع ہوا۔تاہم یہ تحقیق طلب ہے کہ سب سے پہلے ادب میں تحقیقی مقالے پر سند دینے کی شروعات کس ملک میں ہوئی۔علامہ اقبال ستمبر ۱۹۰۵ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لاہور سے یوروپ گئے اور کیمبرج یونی ورسٹی کے ٹرنٹی کالج میں داخلہ لیا جہاں انھیں ۱۳؍جون ۱۹۰۷ء میں بی۔اے کی ڈگری ملی۔لیکن نومبر ۱۹۰۷ء میں انھوںنے جرمن کے میونخ یونی ورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے اپنا مقالہ ’’ایران میں مابعد الطبعات کا ارتقا‘‘ کے موضوع پر انگریزی زبان میں مقالہ داخل کیا جس سے گمان غالب ہوتا ہے کہ اس وقت لندن کی کیمبرج یونی ورسٹی میں یہ سہولت دستیاب نہیں تھی ورنہ اقبال کو اس مقصد کے لیے جرمن کا سفر کی ضرورت نہیں پڑتی۔تاہم ڈاکٹریٹ اور ڈاکٹر آف فلاسفی محلِ نظر ہے۔کتابوں کی طباعت و اشاعت نے تحقیق کے فروغ میں اہم رول اداکیا اور کتابوں کی طباعت سب سے پہلے جرمن میں شروع ہوئی۔پروفیسر عتیق احمد صدیقی کے مطابق:

’’…ترکی کی آٹومن خلافت(۱۹۲۲ء۔۱۲۹۹ء) کے دور میں جب جرمنی میں ۱۴۵۵ء میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد ہوئی تو اس وقت کے سلطان سلیم (اوّل) نے خلافت کے شیخ الحدیث کے کہنے پر پابندی لگادی اور اعلان کیا، جو کوئی پرنٹنگ پریس کا استعمال کرتا پایا گیا اس کو سزا دی جائے گی۔ اس وقت خلافت ترکی سے نکل کر جنوب مشرقی یورپ، مرکزی یورپ کے کچھ حصوں، مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ تک پھیل چکی تھی۔اس فتوے کا دور رس اثر ہوا اور اس وقت کے مسلمانوں کی ترقی کی رفتار یکایک رُک گئی…مسلم دنیا میں پہلی کتاب ۱۸۱۷ء میں چھاپی جاسکی۔‘‘۱؎

اس حوالہ کی بنیاد پر قیاس لگایاجاسکتا ہے کہ ڈاکٹریٹ کی سند کے لیے جرمنی نے اپنے یہاں پہلے اہتمام کرلیا تھا۔لیکن اسی اثنا میں لندن میں بھی تحقیقی ادبی مقالے پر سند دینے کی قواعد شروع ہوگئی کیوںکہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے برِ صغیر ہند کی جو نئی نسل یورپ کی تعلیم گاہوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن گئی تھی ان میں ڈاکٹر عبد العلیم، کنور محمد اشرف، سیف الدین کچلو، فخر الدین علی احمد،قاضی عبد الودود،سجاد ظہیر، پنڈت جواہرلال نہرو، ملک راج آنند، ڈاکٹر محمد دین تاثیر، آصف علی، محی الدین قادری زور وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں،ان میں بیشتر دانشوروں، قلم کاروں اور مصنفین نے کیمبرج یونیورسٹی لندن سے پی ایچ۔ڈی کی سند حاصل کی ہے۔

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی سے ہی اردو ادب میں حصولِ سند کے لیے یونی ورسٹی میں، تحقیقی مقالے داخل کرنے کی روایت ملتی ہے۔پہلا تحقیقی مقالہ بابائے اردو مولوی عبد الحق کی نگرانی میں ۱۹۳۲ء میں ایم۔اے کے لیے لکھاگیا تھا جس کا موضوع ’’سودا‘‘ ہے اور محرر کا نام شیخ چاند جس کو ۱۹۳۹ء میں انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد نے شائع کیا تھا۔جب کہ اردو ادب میں پہلے مقالہ پر ڈاکٹر محمد صادق کو ۱۹۳۹ء میں پنجاب یونی ورسٹی نے پی ایچ۔ڈی کی سند تفویض کی لیکن یہ مقالہ انگریزی زبان میں تحریرکیاگیا تھا۔لہٰذا الٰہ آباد یونی ورسٹی سے ڈاکٹر رفیق حسین کو ۱۹۴۲ء میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری ملی جس کو اردو ادب میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی پہلی سند قرار دی جاسکتی ہے۔ ممکن ہے مزید تحقیقات سے کوئی اور عقدہ کھلے۔اسی دور میں یونی ورسٹی کے ذریعے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے طریقۂ تحقیق اور اس کے اصول و ضابطے کا تعین ہوا جس پر عربی و فارسی تحقیقی طریقۂ کار اور عملی نوعیت دینے کے لیے انگریزی ادب کو مطمحِ نظر رکھاگیاہے۔ اردو ادب کے دورِ اوّل کے محققین میں بابائے اردو مولوی عبد الحق، حافظ محمودخاں شیروانی، پرفیسر سیّد مسعود حسن رضوی، نصیر الدین ہاشمی، امتیاز علی خاں عرشی کے نام بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔مذکورہ محققین نے عربی، فارسی کے ساتھ یورپی زبانوں خصوصاً انگریزی زبان و ادب سے براہِ راست یا ترجمہ کے توسط سے استفادہ کیا ہے۔کیوںکہ مشین کے ذریعہ کتابوںکی طباعت و اشاعت نے دستیابی کی سہولت فراہم کردی۔ان محققین کی تلاش وجستجو سے گہری وابستگی اور انہماک کی بناء پر اردو کے قلمی نسخوں اور نایاب کتابوںکی طباعت کا سلسلہ شروع ہوا۔خصوصاً مولوی عبد الحق نے بہت ساری نایاب و کمیاب کتابوں اور مخطوطات سے اردو داں طبقہ کو متعارف کرایا۔اس طرح اردو زبان میں تحقیق کے لیے ایک وسیع پلیٹ فارم تیارہوگیا۔ اردو ادب کے محققین کو بھی تحقیقی سند کی بنیاد پر اعلیٰ عہدے پر بحالی خصوصاً لکچرر اور پروفیسرشپ کے لیے تحقیق کرنے کرانے کی لازمیت قرار پانے سے جامعات میں تحقیقی مقالہ تیارکرانے اور سند دینے پر خصوصی توجہ دی جانے لگی۔ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن نے بھی تحقیق کو بڑھاوا دینے کے لیے متعدد زمرے کے اسکالرشپ کا اہتمام و اعلان کیا جس سے جامعات میں تحقیقی سرگرمیاں پروان چڑھ گئیں۔ بقول رشید حسن خاں:

’’یہ موجودہ حالات کا اثر ہے کہ اردو میں ادبی تحقیق کی بیشتر سرگرمیوں کے لیے اب یونی ورسٹیوںکی فضائیں سازگار نظر آتی ہیں۔اگر یہ کہاجائے کہ ہماری یونی ورسٹیاں تحقیقی مقالوں کے کارخانوںکی حیثیت اختیارکرچکی ہیں، تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ طلبہ کے علاوہ، دانش گاہوں کے اساتذہ بھی حسبِ توفیق، شمار میں اضافے کرتے رہتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اس کثرت اور تیز رفتاری نے پستیٔ معیار کو عام کردیاہے۔‘‘  ۲؎

یہ صحیح ہے کہ حصولِ مقصد یعنی ملازمت اور پرموشن کے لیے تحقیق لازم قرار پانے سے بہ کثرت تحقیقی مقالے تیار ہونے لگے جس سے معیار ضرور متاثرہوا، لیکن کسی بھی موضوع پر تحقیق کے لیے بنائے گئے اصول و ضابطے خصوصاً ابواب میں تقسیم کرکے موضوع کی تحلیل و تجزیہ اور سیر حاصل بحث نے دائرۂ فکر کو وسیع کیا نیز وقتاً فوقتاً یو۔جی۔سی کے رہنما اصول جاری ہوتے رہتے ہیں جس سے تحقیقی عمل میں احتساب و توازن پیدا ہوتاہے جو تحقیقی مقالے کو افادی اور کارآمد بنانے میں معاون ہے۔تاہم اس کا اعتراف بھی کرنا پڑتاہے کہ مقالہ کی ضخامت بڑھانے اور انشاء پردازی کا جوہر دکھانے کی وجہ سے کارآمد تفتیش متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے،مثلاً علمی ادبی کارناموںکی بناء پر کوئی شاعر یا ادیب تحقیق کا موضوع بُنتاہے لیکن تاریخ و سنہ پیدائش پر بے جا بحث و تمحیص اور اس کے لیے آثار و روایت پر دلائل در دلائل کی وجہ سے اصل کارنامہ پس منظر میں چلا جاتاہے جس سے فنکار و قلم کار کی اہمیت اور شناخت قائم ہوتی ہے اور تحقیق کا جواز بنتاہے۔ یہ صحیح ہے کہ سنِ پیدائش کے مد نظر ہی موضوع کے عصری معاملات و مسائل کا بہتر محاکمہ و محاسبہ ممکن ہے کیوںکہ عصری واقعات و حالات کے اثرات؛ قلم کار و فنکار پر مرتب ہوناناگزیر ہے۔لہٰذا شخصیت کی تشکیل میں عصری معاملات لازمی جز کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن تاریخ و سنِ پیدائش میں چند دن و چند ماہ و سال کی تفریق سے کارناموں کے محاکمہ، محاسبہ اور تحلیل و تجزیہ پر کوئی خاص اثر نہیںپڑتا۔اس تعلق سے علامہ اقبال کی مثال ملاحظہ فرمائیںکہ علامہ اقبال کے تعلیمی ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد ان کا سنِ ولادت۱۸۷۷ء قرار دیا گیا اور ان کے فرزند جاوید اقبال بھی اس کی تصدیق کررہے تھے لیکن اس پر محققین،متفق نہیں تھے اور اس حوالے سے طول طویل مضامین لکھے جارہے تھے۔ نتیجتاً ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ افتخار امام صدیقی ’’توقیتِ اقبال‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:

’’اقبال کی سنِ ولادت کا اختلاف مفروضہ سنین کے اپنے اپنے تحقیقی شواہد کے باوجود طے نہیں ہوسکا ہے۔پاکستان میں۹؍نومبر۱۸۷۷ء کو حتمی طورپر تسلیم کرلیا گیاہے۔ دیگر تاریخوںمیں ۱۸۷۰ء، ۱۸۷۲ء، ۱۸۷۳ء، ۱۸۷۵ء اور ۱۸۷۶ء بھی موجود ہیں۔۱۸۷۳ء اور ۱۸۷۷ء پر زیادہ زور دیاجاتاہے اور خاصی بحثیں موجود ہیں۔ تمام اختلاف کی موجودگی میں ۱۸۷۷ء کو بنیاد مان کر اس توقیت کی تشکیل کی گئی ہے کیوںکہ پاکستان میں اب اقبال پر جو بھی کام ہورہاہے اسی سند کے اندراج کے ساتھ ہورہاہے۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اقبال کے سوانح میں اختلافی امور میں جمہور کے اجتماع کو حکم تسلیم کیاجائے۔‘‘  ۳؎

سنِ پیدائش یا اس نوعیت کے جو بھی امر ہوں، جو علمی و ادبی کارناموں سے جزوی تعلق رکھتے ہیں اس سلسلہ میں میراخیال ہے کہ سند میں درج تاریخ و سنِ پیدائش اور معلومات کو ہی ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ روایت و آثار سے متواتر دلائل درج کرکے وقت اور توانائی ضائع کرنے کے بجائے کارنامہ پر توجہ ہونی چاہیے تاکہ کارآمد نکات منظرِ عام پر آجائیں۔

ادبی تحقیق میں تنقیدی روِش:

اُسی دَور میں کچھ سخت رویّہ کے حامل محققین؛ اردو شعر و ادب کے منظرنامہ پر آئے جن میں قاضی عبد الودود، مالک رام، گیان چند جین، ڈاکٹر سیّد عبد اللہ، جمیل جالبی، وہاب اشرفی، رشید حسن خاں کے ساتھ جامعاتِ ہند اور بیرونِ ہند کے محققین اساتذہ، شامل ہیں جنھوںنے اردو میں ادبی تحقیق کو معروضی بنانے میں کلیدی حصّہ لیاہے۔ان میں قاضی عبد الودود کو سرخیل قرار دیاجاسکتا ہے جو معاشیات میں انگلینڈ سے گریجویٹ تھے۔تاہم اردو شعر و ادب خصوصاً تحقیق و تنقید کو اپنے دائرۂ فکر کا مرکز بنایا۔چوں کہ معاشیات میں گوشوارہ تیارکرکے اس کا محاسبہ کیاجاتاہے اور روایت و آثار سے گریز کرتے ہوئے قطعیت کو ملحوظ رکھاجاتاہے لہٰذا معاشیاتی طریقۂ عمل یعنی دو ٹوک و واشگاف امر کو پیش کرنے کا طریقہ قاضی عبد الودود کی تحقیق میں نمایاں ہے جو اردو ادب میں تحقیق کا نیا زاویہ عطا کرتا ہے اس لیے:

’’رشید حسن خاں صاحب سب سے زیادہ قاضی عبد الودود مرحوم سے متاثر ہیں اور اس کا برابر اعتراف بھی کرتے رہتے ہیں۔ قاضی صاحب نے اس میدان میں جو طریقۂ تحقیق اختیار کیا تھا رشید صاحب اپنے آپ کو بڑی حد تک اس کا پابند بنائے ہوئے تھے۔‘‘  ۴؎

حالانکہ بدلتے ہوئے وقت اور حالات کے زیرِ اثر رشید حسن خاں نے قاضی عبد الودود کے نظریۂ تحقیق سے بعض امور میں اختلاف بھی کیاہے۔رشید حسن خاں، اپنے خیال کے ساتھ قاضی عبد الودود کے قول کو بھی رقم کرتے ہیں۔مثلاً:

’’حقائق کی بازیافت تحقیق کا مقصد ہے، اس کو یوں بھی کہاگیاہے کہ ’’تحقیق کسی امر کو اس کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے۔‘‘(قاضی عبد الودود)  ۵؎

دراصل عقل و خرد کی علم برداری میں اس وقت تک تحقیقی موضوعات بھی انتقادی دائرے میں آگئے تھے۔یعنی کسی عظیم شخصیت کی تخلیق و تحریر سے مرعوب ہونے کے بجائے امرِ واقعہ کا تجزیاتی مطالعہ کیا جانے لگا اور اس کو سمجھنے کی کوشش ہونے لگی۔بقول رشید احمد خاں:

’’کسی امر کی اصلی شکل کا تعین اس وقت ہوگا جب اس کا علم ہو۔ یہ صحیح ہے کہ کسی چیز کا معلوم نہ ہونا، اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا؛لیکن ادبی تحقیق میں کسی امر کا وجود بہ طور واقعہ اسی صورت متعین ہوگا جب اصولِ تحقیق کے مطابق اس کے متعلق معلومات حاصل ہو۔‘‘  ۶؎

حقیقتاً عقل و خرد کی میزان سے پرکھنے کے بعد ہی اصل واقعہ سے واقفیت ممکن ہے، جو انتقادی فکر کی متقاضی ہے۔اس تناظر میں اردو کی ادبی تحقیق کے لیے تنقیدی روِش فطری امر ہے۔ جس سے تحقیق کا منظرنامہ یکسر بدل جاتاہے اور دور کی کوڑی لانے کے بجائے کام کی کوڑی کی جستجو ہونے لگتی ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی تک ادبی تحقیق کے لیے انگریزی لفظ Research  کے زیرِ اثر تلاش، جستجو اور تفتیش میں پائی جانے والی کھوٹ یا لغزش؛ تحقیق کا موضوع اور اس کی بازیافت، تصور کیاجاتا لیکن اکیسویں صدی میں ادبی تحقیقات کے موضوعات بھی حقیقت آشنائی کو قرار دیاجانے لگا۔ یعنی جو دستیاب نہیں ہے اس کی جستجو کی جائے خواہ وہ کسی شعر و ادب کے اصل خالق کی تلاش ہو یا کسی علمی ادبی کارنامے کی یا تاریخی، تہذیبی و ثقافتی تناظر کی جستجو؛ جو تخلیقات کے محرک ہیں، آج اہمیت اختیارکرچکی ہیں۔مستعاری افکار و نظریات کی تقلید کے بجائے غور و فکر سے افکار و نظریات وضع کرنے کی طرف اردو ادب میں فوقیت دی جانے لگی ہے کیوں کہ مغرب کے زیرِ اثر بیسویں صدی کے نصف سے حقیقت اور اصلیت کے بجائے مادّیت کو اپنی منہج و محور بنالیاگیا، جو حقائق کی بجائے زندگی میں سہولت، آرام و آسائش اور زیبائش کو ترجیح دیتی ہے۔ تصورات و تخیلات اور رومانیت سے گریز، اس کا ایقان ہے اور اپنے مقصد کے حصول میں مادیت؛ انسانی قدروں کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔احساس و جذبات، صبر و تحمل اور مسرت و بصیرت جو انسانی زندگی کی کلید ہے اور معاشرتی زندگی کو خوشگوار بنانے میں معاون ہیں؛ جہاں سے ادب پارے کی نمو ہوتی ہے اس سے بھی مادیت روگردانی کرتی ہے جس سے کلیدی انسانی اقدار کے ساتھ اخلاقیات بھی مجروح ہوتی ہیں۔حالاں کہ مادیت کا دخو ل معاشرتی نظام بشمول ادب؛ قدیمی ہے لیکن بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے یہ جس طرح متشکل ہوئی ہے اس نے ادب کو نافع اور غیر نافع میں منقسم کردیا ہے۔مبین مرزا کے مطابق:

’’یوں دیکھئے تو مادیت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔افراد، قوم اور تہذیب کسی بھی سطح پر۔یورپ کی تو نشاۃ ثانیہ کی بنیاد کا پتھر ہی مادیت کو تسلیم کیا گیا، لیکن گزشتہ صدیوں کی مادیت اور بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں متشکل ہونے والی مادیت کی حقیقت و معنویت ایک دوسرے سے بالکل الگ ہے۔ان دونوں میں جوہری نوعیت کا فرق ہے۔ گزشتہ ادوار میں مادیت فرد، سماج اور تہذیب سب کے لیے سامنے کے ایک ہدف کی حیثیت رکھتی تھی، یعنی خارجی مظہر تھی۔ اس کے اثرات بھی بڑی حد تک انسان اور سماج کے ظاہر میں نمایاں ہوتے تھے۔ جب کہ آج یہ حیاتِ انسانی کے لیے غایتِ اولیٰ کا درجہ اختیار کرچکی ہے اور اب خارجی نہیں، ایک داخلی محرک ہے چنانچہ تہذیبی اقدار کی تشکیل اور ان کے مظاہر میں اب یہ قوتِ عاملہ و نافذہ کا کردار ادا کرتے ہوئے ان کے لیے ضابطۂ کار بھی مرتب کرتی ہے۔آج فرد اور اس کے سماج میں مادیت کے اثرات کا دائرہ کیا سے کیا ہوچکا ہے، اس کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں ہے۔‘‘  ۷؎

اردو ادب میں تحقیقِ جدید؛ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی سے نمایاں ہوتی ہے جب مکمل طور پر اردو زبان و ادب، انٹرنیٹ سے استوار ہوگئی نتیجتاً اردو زبان و ادب بھی ایک نئے جہان سے آشنا ہوگئی جس نے اردو زبان کو انقلاب آفریں بنادیا۔ اس طرح اردو کے ادبی کارناموں کی رسائی خواص سے عوام تک ہونے لگی اور بطور ردِ عمل؛ تنقیدی جواز سے محققین و مصنفین روبرو ہونے لگے۔ لہٰذا فوری طور پر اس کے دو فوائد منظرِ عام پر آئے۔ پہلا فائدہ یہ ہوا کہ تنقیدی روِش نے تحقیق کو معروضی بنادیا۔حقائق پیش کرنے میں قطعیت آگئی۔ اس سبب سے مفروضہ واقعات حاشیہ پر آگئے کہ وہ تنقید کی زد میں آنے لگے۔ بہت ساری تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی التباس کا ازالہ ممکن ہوگیااور نئی قندیلیں روشن ہوگئیں، جس کا محاسبہ آنے والا وقت کرے گا۔انٹرنیٹ کے متعدد ویب سائٹوں کی وجہ سے دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ادب میں بھی شفافیت آگئی اور سرقہ کی گنجائش ناپید ہوگئی۔ قدیم سے جدید کتب کی اسکین کاپی اور پی ڈی ایف انٹرنیٹ پر دستیاب ہونے سے جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی۔ درحقیقت انٹرنیٹ کی وجہ سے ویب سائٹس’’جامِ جمشید‘‘ بن گئے ہیں۔جس کے تعلق سے روایت ہے کہ جمشید بادشاہ اپنے پیالہ مئے میں ، ملکی معاملات اور کوائفِ زندگی ملاحظہ کرلیا کرتا، لیکن پیالہ ٹوٹنے کا خدشہ برقرار رہتا۔ لہٰذا غالب کا کہنا ہے کہ جامِ جم سے میرا جامِ سفال اچھا ہے، کہ ٹوٹے ہوئے پیمانے کی ڈھیر بھی لطف اندوز کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ’شغل‘، ’جامِ جمشید‘ سے ہو یا ’جامِ سفال‘ سے؛ بعد کی کیفیت یکساں ہی ہوتی ہے۔

رواں صدی کی تحقیقی روش میں بیداریٔ عقل و خرد کے ساتھ تحلیل وتجزیہ کا عمل بھی وارد ہوگیا ہے جو تنقید کے لیے مخصوص تصور کیاجاتاتھا۔آج کی تحقیق نے تلاشِ صداقت و حقیقت میں تقلید ِ برگزیدگی سے آزادانہ روش اختیارکرلیاہے۔مطلب تحقیقی عمل اور اسناد کے لیے عظمت و برتری کی طرف نہیں بلکہ ان کے کارنامے اور تحریروںکو تحلیل وتجزیہ کی کسوٹی پر پرکھنے اور اپنے مشاہدے و تجربے سے صیقل کرنے پر ترجیح دی جارہی ہے۔ اس عمل سے تحقیقی دائرۂ کار میں وسعت آئی ہے اور انتقاد؛ تحقیق کا لازمہ بن گئی ہے کہ تحقیق سے پہلے غور و فکر کریں کہ برآمد نتائج میں مسرت وبصیرت کے ساتھ افادی پہلو بھی ہے کہ نہیں۔اس تناظر میں سرسیّد احمد خاں کے ان خیالات کی معنویت مسلّم ہوجاتی ہے جو انھوںنے اپنے مضمون ’’رسم و رواج کی پابندی کے نقصانات‘‘ میں تحریرکیاہے مثلاً کسی امر کی اصلیت و صداقت کو جانے بغیر، تحقیق کا موضوع بنانے سے بقول سرسید احمد خاں:

’’اگر کوئی نقصان نہ ہو تو یہ نقصان ضرور ہے کہ آدمی کی عقل اور دانش و جودتِ طبع اور قوتِ ایجاد باطل ہوجاتی ہے۔‘‘  ۸؎

تحقیقی عمل کارِ دشوار ہے تاہم زندگی میں عمدہ اورکارآمد؛ حصول کے لیے کوئی عمل آسان نہیں ہوتا؛خونِ جگر کی ضرورت ہوتی ہے پھر یہ خیال کہ تحقیق؛ سخت محنت طلب، دل جمعی اور پتّاماری کا کام ہے نیز محقق کولھو کا کا بیل بن جاتے ہیں جب کہ کولھو کے بیل کی آنکھوں پر پٹّی بندھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی محور پر گھومتے رہیں اور اگل بغل کی حرکت و عمل سے بدک نہ جائیں، لیکن اسلاف محققین کی محنت، لگن، سخت کوشی اور ذہنی ارتکاز سے تحقیقی میدان میں جو مشعل روشن ہوا ہے، اس کی روشنی میں تحقیق جدید نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ریس کے گھوڑے ہی علم بردارِ تحقیقِ جدید کے استحقاق رکھتے ہیں کیوں کہ وہ اپنی کھلی آنکھوں(جدید ٹکنالوجی کا استعمال) سے چاروں طرف پھیلے علمی و ادبی کارناموں کے تحلیل و تجزیہ کرتے ہوئے معروضی انداز میں بے لاگ رائے قائم کرتے ہیں۔لہٰذا وہ موضوعات کے انتخاب میں بھی محتاط رویّہ اختیار کرتے اور اس بات کی فہم رکھتے ہیں کہ کس نوعیت کے موضوعات، حصولِ سند کے ساتھ فرد و معاشرے کے لیے مسرت آمیز، راہبر اور مفید ہوگا۔ وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر نہیںکہ سخت محنت اور ذہنی ارتکاز کے بغیر زندگی کے کسی شعبے میں نمایاں کامیابی ممکن نہیں ہے۔ علاوہ ازیں آرام و آسائش اور نمود و نمائش کے لیے صرف مادی ترقی کو جواز قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ قلب ونظر اور روح کو سکون وتسکین بھی حاصل ہو؛ تحقیق و تسخیر کا کلیدی ہدف ہونا چاہیے۔

نثر،ہی تحقیق کا کارنامہ انجام دینے کے لیے موزوں وسیلہ ہے۔ انتقاد سے تحقیق کا الحاق ہوجانے سے اس کے دائرۂ عمل اہمیت و معنویت میں وسعت و ہمہ گیری پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس استحقاق سے تحقیقی نثر کی زبان و بیان کی مزاولت توجہ طلب ہوجاتی ہے۔ تحقیق میں بیانیہ کے بجائے پُرمعنی، الفاظ، تراکیب اور اصطلاح سے مزین نثر کو مرصّع (Empower)کرنے اور انشا پردازی کے بجائے علمی و دانشورانہ نثر کو مطمحِ نظر بنانے پر توجہ ہونی چاہیے۔کیوںکہ تحقیق؛ دلائل اور آثار و براہین پر مشتمل ایسی زبان و اندازِ بیان کی متقاضی ہے جس میں تدبر و تفکر، ادراک و بصیرت اور منطقی افکار و خیالات، اپنی قطعیت کے ساتھ ترسیل کے مراحل طے کرنے کے ممکنات موجود ہیں۔ایسی نثر جو سائنس و ٹکنالوجی میں استعمال کی جانے والی اصطلاحات و افکار کی بار اٹھا سکے۔لہٰذا اردو نثر کی ترجیحات ، علومِ جدیدہ کے متحمل بنانے کی ہونا چاہیے۔ چوں کہ تحقیق و تنقید کے قارئین کا تعلق، تعلیم یافتہ طبقہ سے ہوتا ہے جو بہتر فہم و ادراک کے حامل ہوتے ہیں اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ اعلیٰ معیاری زبان اور علم و حکمت سے لبریز الفاظ و تراکیب اور اصطلاحیں ترسیل میں رخنہ نہیں ڈالیں گی۔ میرے خیال میں تحقیقی ادب کو تفریحی ادب/مقبول ادب(Popular Literature) کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا ۔اس طرح کی نثر سے آراستہ کتابیں تحریر کی جارہی ہیں۔ اردو میں اس نوعیت کی کتاب کی بیّن مثال ’’کتاب العروج‘‘ ہے ۔ طب یونانی کی درس و تدریس اور طریقۂ علاج کے لیے جو ادب اردو میں دستیاب ہے وہ مفرس و معرب ہے اوراصطلاحیں بھی مشکل؛ اس لیے اس کی افہام و تفہیم میں ڈاکٹر اور مریض دونوںکو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لہٰذا جہاں تک ممکن ہوسکے اس کی زبان اور الفاظ و تراکیب کو سہل بنانے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد مستفیض ہوسکیں۔حالاںکہ ہومیوپیتھی میں اس نوعیت کی کتاب موجود ہیجس سے اردوداں بھرپور استفادہ کررہے ہیں۔ ایلوپیتھی اور انجینئرینگ کے لیے اردو میں کتابیں تیار کرتے وقت ان امور کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔

مختصر یہ کہ حکمت، تدبر اور علومِ جدیدہ کے تمام شعبوں میں استعمال ہونے والی اصطلاحیں اور تراکیب خواہ وہ کسی بھی زبان سے مستعار کیوں نہیں کی گئی ہوں، اگر عموماً مستعمل اور مانوس ہیں؛ ان کا اردو رسمِ خط میں استعمال دانش مندی ہوگی کہ اس سے زبان اور علم میں وسعت و گیرائی آئے گی۔ ان کے مترادف وضع کرنا قبولیتِ عام سے گریز ہوگا۔ اس تناظر میں اردو زبان کو ادب کے ساتھ دیگرعلوم و ہنر اور علومِ جدیدہ کے متحمل بنایا جاسکتا ہے۔

(غیر مطبوعہ)

حواشی:۔

(۱) بحوالہ ’’انقلاب‘‘ روزنامہ ۱۲؍ستمبر۲۰۲۲ء۔ ص ۹

(۲) ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ: رشید حسن خاں۔ص ۳۳۔۳۴، اکادمی ایڈیشن

(۳) بحوالہ شاعر اقبال نمبر ۱۹۸۸ء، ص ۲۴

(۴) ادبی تحقیق مسائل اور تجزیہ: رشید حسن خاں، ص ۵

(۵) ایضاً

(۶) ایضاً

(۷) بحوالہ’’انقلاب‘‘ روزنامہ،۱۷؍اکتوبر ۲۰۲۲ء، ص ۱۲

(۸) بحوالہ ’’انتخاب مضامینِ سرسید‘‘ مطبوعہ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ص ۳۴، سنِ اشاعت ۱۹۸۰ء

Dr. Abdul Barkat

University Professor

Mob. : 8210281400

E-mail : abarkat9835@gmail.com

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے