ابلیس کی کہانی! ابلیس کی زبانی

ابلیس کی کہانی! ابلیس کی زبانی

ترتیب۔محمد قمرانجم قادری فیضی 

عنوان دیکھ کر چونکئے مت! 
آپ جب پڑھیں گے تو پڑھتے چلے جائیں گے ۔
انسانوں کی ایک محفل میں گناہوں کا ذکر چھڑ گیا ایک بولا اگر دنیا میں شیطان کا وجود نہ ہوتا تو کوئی شخص گناہ نہ کرتا ۔ دوسرے نے کہا ۔ شیطان کو کیوں بدنام کرتے ہو ، گناہ خود انسان کرتا ہے شیطان کا اس مین کیا قصور ۔؟
بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی سوال اٹھا یہ شیطان ہے کیا بَلا؟ کسی نے کہا فرشتہ تھا ، کسی نے کہا جن تھا کوئی بولا فرشتوں کا استاد ہے ، حضرت آدم کو جنت سے نکلوا دیا اور اب دنیا میں لوگوں سے گناہ کرا رہا ہے ۔یقین کے ساتھ شیطان کے متعلق کوئی کچھ نہ بتا سکا۔

 دوستوں میں سے ایک بولا یار دنیا میں ہزارون انسانوں نے اپنی سوانح عمریاں شائع کیں ، فرشتوں کی دنیا میں کسی کو یہ جرت نہ ہوئی ۔ کم سے کم یہ معلوم تو ہوتا یہ لوگ کون ہیں اور یہ جو ان کا استاد مشہور ہے آخر ایسی کیا بپتا پڑی کہ بیچارا اتنا بدنام ہو رہا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی دنیا اپنے اعمال نامے انسانوں کے سامنے بھیجتے شرماتی ہے ضرور کوئی نہ کوئی خامی ہوگی ۔
انسانوں کی زبانی یہ کلام سن کر 
ابلیس کو بڑا غصہ آیا اور غصے میں اپنی کہانی خود اپنی زبانی ہی سنانی شروع کردی تاکہ انسانوں میں اسکی سُبکی نہ ہو ۔ابلیس نے خود اپنی زبان میں اپنی سوانح عمری کچھ اس طرح شروع کی ۔

کیوں صاحب ! جب ہمارے ہاتھوں سے بنائے ہوئے مٹی کے کھلونے دنیا میں آکر اپنی اپنی سوانح عمریاں شائع کرتے ہیں تو فرشتوں اور ان کے ساتھیوں نے کسی کا بیل تھوڑی مارا ہے کہ زبان اور قلم پر تالا لگائے بیٹھے رہیں ہم کیوں نہ اپنی زندگی کے حالات لکھیں اور کیوں نہ اسے شائع کریں۔
آج تک کسی جن یا فرشتہ نے اپنی سوانح عمری شائع نہیں کی کیوں نہی کی یہ ایک راز ہے اور رکھا گیا ہے ۔ دنیا میں رہنے والے کم سمجھ انسان اسے نہیں سمجھ سکتے خاک کی بنی ہوئی عقل کیا خاک سمجھے گی کہ یہ نوری اور ناری دنیا آج تک اپنی اپنی سوانح حیات لکھنے سے کیوں گریز کرتی رہی ہیں یہ موٹی عقل کے پتلے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جنوں کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا یا انہیں لکھنے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ ہم نے مٹی کے پتلوں سے پہلے کھانا سیکھا ہے پہلے بولنا سیکھا ہے اگر کسی کو یہ غرور ہے کہ دنیا کا بے بضاعت انسان کسی معمولی سے معمولی فرشتے کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے تو یہ انسان کی اہم حماقتوں میں سے ایک اہم حماقت اور نادانی ہے ۔

شیطان نے اور نہ جانے کیا کیا کہا نادان جاہل ظالم کمتر انسان ، خاکی عقل والا کوتاہ عقل نا سمجھ بڑی طول بھری داستان تھی جو اس کی اندر کی آگ کی غمازی کر رہی تھی لیکن میں وہ سب کچھ حذف کر رہا ہوں کیوں کہ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے اس لئے میں صرف قیمتی باتیں آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔
میں اپنی سوانح عمری لکھنے سے پہلے یہ عرض کردینا چاہتا ہوں کہ میرے پاس فی الحال کوئی ایسا مُنشی نہیں ہے جو میرے بتائے ہوئے واقعات سلسلہ وار درج کر سکے اور ظاہر ہے کہ میں بیک وقت یہ دونو ں کام انجام نہیں دے سکوں گا نہ میرے پاس اتنا وقت ہے اور نہ بظاہر اسکی کوئی ضرورت ہے ، میرا مقصد زندگی کے واقعات اور سوانح حیات کو روشنی میں لانا ہے اور اسکے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ تقدیم اور تاخیر کا خیال رکھا جاے پس میری زندگی کے واقعات پڑھنے والوں کو یہ خیال نظر انداز کر دینا پڑیگا کہ میں نے سلسلہ کیوں نہ قائم رکھا ۔

اپنے منھ مٹھو میاں بننا سب کو آتا ہے سب بن سکتے ہیں لیکن کہنے اور کرنے میں بڑا فرق ہے یہ بے سرو سامان انسان کہتے ہیں کہ فرشتہ ہماری برابری نہیں کر سکتا ۔اور غرور کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر دنیا میں بھیجا ہے
اشرف المخلوقات ٹھہرایا ہے افضل الکائنات قرار دیا ہے اور فرشتوں کا مسجود بنایا ہے  ابھی اگر قلعی کھول دوِ تو کِر کِری ہوجائے گی، اللہ تعالیٰ نے اپنی کریمی رحیمی کے صدقے میں اپنا خلیفہ کہدیا تو کم ظرف انسان جامہ سے باہر ہوا جاتا ہے ۔

اشرف المخلوقات کہہ دیا افضل الکائنات فرمادیا تو اس کی گردن میں ایک مستقل ہڈی پیدا ہوگئی جو گردن کو جھکنے ہی نہیں دیتی، مسجود بنا دیا تو اب اس کی نظر میں ساری کائنات حقیر ہو رہی ہے

ارے واہ رے تیری کم ظرفی اتنی سی بات میں اُبلا پڑتا ہے دو آنکھیں ہونے پر بھی تیری کور چشمی کی یہ حالت ہے، ہمیں دیکھ اوکم ظرف، تو تین دن کی پیداوار ہے تیری تین دن کی پیدائش ہے ابھی تیرے منھ سے دودھ کی بو آ رہی ہے عالی ظرفی دیکھنی ہے تو کبھی فرشتوں کی دنیا میں آ، 

اپنے ساتھ اپنے انکھیں بھی لا، اور دیکھ جنہیں قرب الہی میسر ہے جنہیں دیدار خداوندی حاصل ہےط جنہیں عرش کی قربانی میسر ہے دیکھ اور اچھی طرح دیکھ کہ ان عالی مرتبوں کے باجود وہ اپنا ایک ایک لمحہ عبادت خداوندی میں صَرف کر رہے ہیں، ممنونیت کی معراج دیکھ، وہ خدائے تعالیٰ کے خلیفہ بھی نہیں اشرف المخلوقات بھی نہیں، اور جو کچھ تُو ہے یا بزعم خود بنتا ہے وہ بھی وہ نہیں ہیں ۔

لیکن اظہار ممنونیت بھی دیکھ اور شرما جا ،آج تُو ان سب کو سجدہ میں دیکھتا ہے یہ آج سے نہیں، ازل ہی سے سجدہ میں ہیں اور اَبَد تک سجدہ میں ہی رہیں گے، ان کے خالق و مالک نے انہیں ایک دولت بخشی ہے اپنے قریب جگہ دی ہے ۔

اس ایک احسان پر ان کی پیشانی اس چوکھٹ سے قیامت تک نہیں اٹھ سکتی، اب ذرا اپنے گر بیان میں منھ ڈال اور تصفیہ کر، تو آج اپنی ذات کو کیا کیا سمجھتا ہے خود تجھے اعتراف ہے کہ خدائے تعالیٰ نے تجھے اشرف المخلوقات کے تاج زریں سے نوازا ہے ۔
۔۔جاری۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے