ابلیس کی کہانی! ابلیس کی زبانی

ابلیس کی کہانی!ابلیس کی زبانی 
تیسری قسط۔

از۔محمد قمرانجم قادری فیضی 
میڈیا سکریٹری [ایم،ایس،او، اترپردیش] 

اس لئے کہ تیرے پاس وہ چیز ہی نہیں رہی جس کی بنا پر اور جس کے زور پر تو میرا مقابلہ کر سکتا اور ذرا اپنا کان اور قریب لا تجھے چپکے سے یہ بھی بتا دوں کہ تو عرصے سے میری مٹھی میں ہے اور میرے اشاروں پر ناچ رہا ہے نا سمجھ بچے!!

 غرور نہ کرنا ذرا اپنے اندردیکھ ،میں بول رہا ہوں تُو تو ایک کاٹ کے پتلے کی طرح رہ گیا ہے جسے مداری کے اشاروں پر ناچنا پڑتا ہے اب تیرے بال بال پر میری حکومت ہے اور تجھے کم ظرف کے اندر رہ کر مجھ میں غرور و تکبر کا مادہ اور بڑھ گیا ہے اب میں بھی غرور کروں گا،  اپنے کو ساری دنیاسے افضل سمجھوں گا اور اس بات کو سب سے منوانے کی کوشش بھی کروں گا، تیرا ایک نقصان تو ضرور ہوا ہے کہ تجھ میں سے وہ چیز جاتی رہی جو تیری زندگی کی اصلی سرمایہ تھی۔

وہ تعلیم جو تیرے پروردگار عالم نے تجھے دی تھی لیکن اب تیرا احسان مند ہونا پڑے گا کہ تیری  آئندہ زندگی اور اس کے عیب سب کچھ مجھ سے منسوب ہو جائیں گے دنیا والے تجھے سیدھا اور سچا کہیں گے تیری خطائیں میرے نامہ اعمال میں درج کرائی جائیں گی لیکن مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔

 یہ سب کچھ میں پہلے ہی سے جانتا ہوں اچھا یہ بات تو بتا دے یہ جو تو اپنے سوانح حیات شائع کرتا ہے اس سے تیرا مقصد کیا ہے ؟ کیا سوانح حیات اسی کا نام ہے کہ اپنی زندگی سے ملتی جلتی کچھ جھوٹی سچی تعریفیں ایک جگہ جمع کر کے چھاپ دی  جائیں، یا چھپوا دی جائیں، یا کچھ اور بھی مدعا ہے آج کل میں دیکھتا ہوں کہ ہر پیسے والا آدمی اپنی پوری زندگی کتاب کی شکل میں چھاپتا ہے اور دنیا میں پھیلاتا ہے اخر اس بات سے منشاء کیا ہے کیا یہ لوگ  اپنی زندگی کے سچے سچے واقعات و حادثات لکھتے ہیں؟  اگر ایسا ہے تو میں نے آج تک کوئی سوانح حیات ایسی نہیں دیکھی جس میں کسی نے اپنی برائی اور اپنے گناہ بھی صاف صاف تحریر کئے ہوں، کیا اس بھری دنیا میں کوئی گناہ ہی نہیں کرتا اور اگر کرتا ہے تو لوگوں نے اپنی تعریفوں کے ساتھ ساتھ اپنے عیب کیوں نہیں بتائے۔

 خیر اسے بھی جانے دو صرف یہی بتا دو کہ پہلے زمانے میں تو لوگ اپنے بڑوں کی سوانح عمریاں لکھا کرتے تھے اور اس میں یہ بھی ممکن تھا کہ دس بیس تعریفوں کے ساتھ ایک ادھ برائی بھی لکھ دیا کرتے تھے لیکن اب تو نئی ہوا چلی ہے جسے دیکھو خود اپنی زندگی کے حالات و واقعات و حادثات شائع کرتا ہے۔
 تو پھر سوانح عمری کیا ہوئی، جس میں زندگی کے مکمل سوانح نہ ہو ارے واہ رے  انسان کی دنیا ،میٹھی میٹھی ہڑپ کڑوی کڑوی تھو تھو، 
اور اوپر سے دعوی کی ہم انسان ہیں اشرف المخلوقات ہیں، متعصب کہیں کے، ارے اگر سوانح حیات لکھو تو سب کچھ لکھو تاکہ دنیا والے تمہارے اچھے کارناموں سے سبق لے سکیں اور برے کاموں، اور تمہارے نادانیوں سے احتیاط اور گناہوں سے عبرت حاصل کریں ، یہ کیا ہوا کہ چھانٹ چھانٹ کا تعریفیں لکھ ماری اور گناہ تو گویا کیا ہی نہیں،

 یہی وہ جذبہ خالص ہے جس نے مجھے اپنے سوانح حیات لکھنے پر مجبور کیا ہے میں نے سالہا  سال فرشتوں کو درس دیا ہے اور دنیا والوں کو بھی تعلیم دینا چاہتا ہوں پڑھنے والوں کو میری حیات سے مجبورا سبق لینا پڑے گا۔۔ وہ دیکھیں گے کہ میں نے اپنی زندگی کے حالات لکھتے ہوئے نہ اپنی کسی تعریف کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کسی عیب پر پردہ ڈالا ہے جو کچھ گزرا ہے بعینہ  لکھ رہا ہوں خواہ وہ اچھی بات ہے یا بری ،

 میرا مقصد اپنی زندگی کے حالات اور اس کے نشیب و فراز لکھنا ہے اگر اس میں کوئی سبق مل سکے تو حاصل  کر لینا اور اگر کوئی بات بری لگے تو نظر انداز کر دینا۔

کیونکہ برائی کا انجام ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے، اچھا ان باتوں کو چھوڑو یہ میرے کہنے کی کوئی چیز نہیں، میرا مشن اس قسم کی پند و نصائح جیسی گفتگو کو جائز قرار نہیں دیتا ہے، میں نے جو کچھ بھی لکھا ہے سچ جاننا ،بڑی زبردست قربانی دی ہے ایسی قربانی جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی، دنیا والے مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں بالفرض اگر یہ بات سچ بھی ہے تو انہیں تسلیم کرنا چاہئے، کہ ان کی دشمنی ایسی کارآمد باتیں اور نصیحتیں اپنے مخالف کو نہیں کرسکتا، یہ اخلاص یقیناً حیرت انگیز ہے جو مجھ سے سرزد ہوا، 
بہرکیف!  اسے جو کچھ سمجھا جائے مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں  اب تو صرف ایک ہی دھن ہے کہ اور وہ یہ کہ میری سوانح حیات شائع ہو، میں فی الحال نہیں جانتا اور جاننا بھی نہیں چاہتا کہ میری اس انوکھے اقدام سے مجھے یا میری مشن کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا یا نقصان، 
کیونکہ میں یہ سب کچھ تقلید کے جذبے سے متاثر ہوکر کر رہا ہوں اور دنیا کو دکھانا چاہتا ہوں کہ سوانح حیات لکھنے والے کو اور خصوصاً لکھوانے والےکو ایماندار ہونا چاہیے، اور مکمل آزادی کے ساتھ وہ تمام واقعات سلسلہ وار لکھدینا چاہئے ۔

کہ جس وجود کو انسان کے دربار میں شیطان اور ابلیس جیسے  خطابات عطا ہوچکے ہیں، وہ اظہار حقیقت میں ان لوگوں سے کتنا آگے ہے جو مقدس صورتیں لئے ہوئے بظاہر زاہدانہ زندگیوں کے مالک ہیں اور جن کی ہر ظاہری فعل سے تقدس کے سمندر میں طوفان آ جاتا ہے اور جب دو چار کوڑیوں کے نفع و نقصان کی صورت آ پڑتی ہے تو اس کی زبان مختلف شاخوں میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔
تصویر کے دنوں رخ سامنے ہیں ایک طرف شیطان ابلیس لعین ہے اور دوسری طرف اشرف المخلوقات، تقدس کا ٹھیکیدار، شیطان کے لئے انسان کی بارگاہ سے جو کچھ عطا ہوتا ہے اسے بھی ملحوظ رکھا جائے اور تقدس مآب صاحب کے لئے انسان کے پاس جتنی عقیدت ہے وہ بھی پیش نظر رہے اس کے بعد میری مذکورہ بالا تحریر پڑھی جائے اور غور کیا جائے کہ دونوں فریق اظہار حق میں کتنے فیاض یا بخیل ہیں اگر پڑھنے والے کے خیال میں مجھ شیطان کے نام دروغ گوئی کا قرعہ نکل آئے تو بسم اللہ، نیازمند حاضر ہے سابقہ الفاظ میں کچھ اور اضافہ کردیا جائے ہر چہ دوست می رسد نیکو است، اور اگر خدانخواستہ یہ خوش نصیبی تقدس مآب کے حصے میں آئے تو صرف دل ہی دل میں یہ دُہَرا لینا چاہئے اور بھول جانا چاہئے کہ ہم کیا سوچ رہے تھے بجائے اس کے کہ اُسے کسی پر ظاہر کیا جائے کہ ضمیر سے کیا آواز آ رہی ہے؟ 
[ خاکسار ابلیس] 

…………جاری…………

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے