ابلیس کی کہانی! ابلیس کی زبانی

ابلیس کی کہانی!ابلیس کی زبانی 
[ دوسری قسط] 

از۔محمد قمرانجم قادری فیضی 
صحافی روزنامہ شان سدھارتھ، سدھارتھ نگر 

 اور اب جھک کر میرے کان ہی میں کہہ دے کہ کبھی تُو نے بھی اظہار  ممنونیت کے لئے اپنا ماتھا ٹیکا ہے کبھی پیشانی اللہ تعالی کے حضور میں اس لئے جھکی ہے کہ  تجھے خدائے تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ، شرما جا او چھوٹی چادر والے اور اعتراف کر لے کہ جو تُو کچھ ہے وہ ظاہر نہیں اور  جو ظاہر ہے وہ تُو نہیں ہے ۔۔

ان فرشتوں کو دیکھ کہ یہ کچھ ہیں  اور نہیں کہتے کی یہ کہ  کچھ ہیں ۔ان کے اعمال کو دیکھ جو انہیں  کرنا چاہئے وہ کر رہے ہیں، اور اپنی دنیا کو دیکھ اور اپنے اعمال کو دیکھ تُو  کس لئے دنیا میں آیا ہے اور کیا کر رہا ہے اس پر بھی یہ دعوی کی انسان فرشتے سے افضل ہے۔ ایک لمحے میں بتا دیتا کہ تیری بساط کیا ہے اور کتنے پانی میں تیر رہا ہے۔

 ساری  کائنات سے افضل ہے ، بڑا تیر تیر مارا اگر دن رات کے 24/ گھنٹوں میں پانچ مرتبہ سر جھکا لیا گویا خدائے تعالی پر کوئی بڑا احسان کر رہا ہے کیا بتاؤں کوئی ایسا موقع نہیں آتا کہ انسان سے  فرشتے کا موازنہ کیا جا سکے،  ورنہ صرف  ایک لمحہ میں بتا دیتا کہ تو کیا ہے اور تُو کتنے پانی میں تیر رہا ہے۔

 آج ہزارہا سال کے بعد اپنے سینے کا راز جو کہ دبا ہوا تھا اسے ظاہر کرنے کے لئے مجبور ہو رہا ہوں وقت مجبور کر رہا ہے تا کہ تجھے بیداری کے نیند سے ہوشیار کر دوں ، تُو جاگتے  میں سو رہا ہے عالم ہوش میں بھی بے خبر ہے آج سنائے دیتا ہوں وہ راز جسے میں نے بہت دن تک اپنے سینے میں چھپائے رکھا تھا، 
جی تو یہی چاہتا تھا کہ تُو اسی طرح سوتا رہے، اسی طرح بے خبری کے عالم میں سانس پورے کرے لیکن کیا کروں میری برادری پر الزام آ رہا ہے میرے بھائی بندوں پر تہمتیں لگ رہی ہیں میرے ساتھیوں کی بدنامی ہو رہی ہے میرے قدیم دوستوں پر  تعصب اور نفرت کے آرہے چل رہے ہیں۔

 نہیں رہا جاتا ہے زبان اور دل قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں اور وہ ایک ایسی بات ظاہر کرنے والے ہیں جسے میں نے سینے کی انتہائی گہرائیوں میں چھپایا ہوا تھا تجھے مدتیں ہو گئی انسان اور انسانیت کے نام پر کاروبار کرتے ہوئے،
 لیکن یہ تو سوچ کی تُو انسان ہے بھی یا نہیں ،تجھ میں انسانیت بھی ہے یا نہیں ،نادان بحث چھیڑنے سے پہلے ذرا اپنے وجود سے بحث کر لی ہوتی ذرا اپنی ذات کو پہچان لیا ہوتا جس نام  پر تو لڑ رہا ہے جس چیز کو تو فضیلت دے رہا ہے وہ کہاں ہے کس کے پاس ہے۔

 ذرا پہلے اسے تو تلاش کر، جبھی  تو کہتا ہوں کہ خاک کے بنے ہوئے خاک کے پتلے کی عقل بھی  اندھی ہے اب عقل کا رونا بھی نہ روؤ، بلکہ جاتے ہوئے احساس ندامت کا ہاتھ  تھام لے اگر یہ بھی نہ رہا تو تو بھی  نہ رہے گا۔

 دیکھ تیرے احساس کی دھجیاں کیسی پراگندہ ہیں بھلا یہ تو سمجھ نادان کی جب تیرے احساس کا یہ عالم ہے تو تُو کیا خاک سمجھ سکتا ہے اپنی بھلائی اور برائی کو اور کیا خاک جان سکتا ہے اپنی وجود کی بساط  کو ،اپنے تغیر  اور انقلاب کو۔

 جس انسانیت کے نام پر تیرا دارو مدار ہے وہ عرصہ ہوا غرور اور تکبر ریگستان میں دفن ہو گئی جو لوگ اس کی تلاش میں نکلے تھے انہوں نے بھی اپنی عمر کا اتار چڑھاؤ اس بے نشان مزار پر چڑھا دیا اب تو انسانیت کے مزار پر کتابوں کے علاوہ رونے والے بھی کہیں نظر نہیں آتے،  سن لیا نا راز کی بات ششدر کیوں رہ گیا دکھتی ہوئی رگ  تکلیف ہی دیتی ہے تعجب نہ کر جواب دینے کی کوشش نہ کرنا یہ دنیا ہے اسی میں یہی ہوتا آیا ہے اشرف المخلوقات کا تمغہ لگائے بیٹھا رہے ندامت و شرمندگی کے مسند پر رونق افروز رہ، اور  انقلابات زمانہ دیکھتا جا۔

 نہ سمجھ انسان فرشتوں سے الجھ کر کیا کرے گا یہ دنیا انسان کی سونچ سے کہیں بالاتر ہے فرشتے اپنے پروردگار کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں ان کی قدر و منزلت جانتے ہیں جو کچھ ملا ہے ان کے ہی پاس رہے گا اور وہ جو کچھ ہیں وہی رہیں گے،یعنی فرشتے ہیں تو فرشتے ہی رہیں گے۔ 

 اس لیے یہ شکر کرنا جانتے ہیں احساس رکھتے ہیں اور کبھی غرور نہیں کرتے ،تجھے نام نہاد انسان کی طرح ان کی گردن  کبھی نہیں اکڑتی، تیرے جیسی  احسان فراموشی ان کے خمیر میں نہیں ہے تیرے جیسا تعصب ان  کے دل و دماغ پر سوار نہیں ہو سکتا تیرے جیسا غرور کرنا یہ نہیں جانتے ہیں۔
 انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ ہم فرشتے ہیں اور انسانوں سے افضل ہیں ارے نادان انسان تو صرف کچھ ہے

  انہوں نے کسی حقیر مخلوق کو بھی اپنے سے برا نہیں سمجھا اور سمجھا کیا نہیں انہیں کسی کی اچھائی یا برائی کرنے کا وقت ہی نہیں ان کو تو پروردگار عالم کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے سے ہی سے فرصت نہیں ملتی۔  کسی کی برائی یا بھلائی میں حصہ کیسے لیں۔

 اور ہاں یہ بھی سن لے  کہ اگر تیری تعلیمات حد سے تجاوز نہ کرتیں اور تو انسانیت سے باغی ہو کر فرشتوں کو اور مجھے لعن طعن نہ کرتا یا ہمیں اپنے سے کمتر نہ سمجھتا تو قسم مجھے اپنے پیدا کرنے والے رب ذوالجلال کی  میں تجھے کبھی جواب نہ دیتا لیکن وقت استاد ہوتا ہے مجھے تیری ہوائی پرواز ہی نے مجبور کیا ہے کہ تجھے تیری صحیح بساط  کا اندازہ کرا دوں اور بتا دوں کہ اج تو انسانیت کے شرف کے  نام پر دنیا میں ہوائی گولے چھوڑ رہا ہے ہر لحاظ سے اور ہر طرح سے میرے مٹھی  میں سما سکتا ہے۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے