حضور چشتی میاں اکابر علماے اہل سنت کی نظر میں

 حضور چشتی میاں اکابر علماے اہل سنت کی نظر میں



از: مولانا محمد نفیس القادری امجدی،مدیر اعلی، سہ ماہی عرفان رضا مرادآباد



ہمارے وطن عزیز نے ایسی بے شمار عظیم نفوس قدسیہ اور باکمال ذوات مقدسہ کو جنم دیا ہے جنھوں نے اپنے علم وتحقیق، زہد  وورع اور تقوی وطہارت کی روشنی سے پوری دنیا کو منور و تابناک کیا اور سرزمین ہند کو چہار دانگ عالم میں مشہور ومتعارف کروایا ہے ۔

اس پاکیزہ سرزمین کی انھیں علمی شخصیات میں دار العلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف کے فرزند جلیل اور علماے کرام و مشائخ عظام کی جماعت میں علمی شخصیت کے مالک،بہترین عالم دین ،علماے اہل سنت کے مابین مقبول ترین شخصیت نبیرۂ حضور شعیب الاولیاء اور شہزادہ  مظہر شعیب الاولیاء شیخ طریقت حضرت علامہ مولانا الحاج صوفی غلام عبد القادر چشتی میاں علیہ الرحمہ کا اسم گرامی سر فہرست نظر آتا ہے۔

حضرت کی ذات مقدسہ زہد و تقوی میں حضور شعیب الاولیاء اور مظہر شعیب الاولیاء کی عکس تھی، انتہائی متقی و پرہیز گار اور پابند شریعت تھے

کہ پابندی فرائض و واجبات کے ساتھ سنن و نوافل بھی کبھی ترک نہیں ہوتے۔ یہ سب آپ کے معمولات محاسن میں شامل تھا۔

آپ کے فرزند حضرت مولانا افسر علی صاحب قبلہ خود اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

"جیسے کہ حضور شعیب الاولیاء علیہ الرحمہ ایک خواب اور حضور مظہر شعیب الاولیاء علیہ الرحمہ اس کی تعبیر ہوں۔ اور انہیں کے نقش قدم پر میں نے والد محترم کو چلتے ہوئے دیکھا ہے اور علماے کرام و مریدین و متوسلین کی زبان مبارکہ سے بارہاں سنا ہے کہ حضور مظہر شعیب الاولیاء علیہ الرحمہ کی تمام تر خوبیاں والد محترم حضرت علامہ غلام عبدالقادر چشتی صاحب قبلہ کے اندر موجود ہیں۔

چاہے وہ عبادت و ریاضت، نماز کی پابندی اور دیگر معمولات ہوں"


گویا کہ شیخ طریقت حضرت علامہ غلام عبد القادر میاں علیہ الرحمہ کی ذات گونا گوں خوبیوں کی حامل تھی۔ وہ اوصاف اور محاسن و کمالات میں سرکار حضور شعیب الاولیاء اور مظہر شعیب الاولیاء کی یادگار اور سچے جانشین تھے۔


آپ علماے کرام سے بے انتہا محبت فرماتے اور ان کا احترام کرتے اور خندہ پیشانی سے ملتے۔ یہی وہ محاسن و کمالات تھے کہ جس کی بنیاد پر نبیرۂ حضور شعیب الاولیاء اور شہزادۂ مظہر شعیب الاولیاء حضرت علامہ مولانا الحاج صوفی عبد القادر چشتی میاں علیہ الرحمہ علماے کرام و مشائخ عظام کی نظر میں مقبول ترین شخصیت تھے۔


حضور چشتی میاں علیہ الرحمہ علماے اہل سنت کی نظر میں:


حضرت چشتی میاں علیہ الرحمہ علماے اہل سنت کے درمیان مقبول ترین شخصیت تھے جس کا اندازہ آپ حضرات بخوبی علماے کرام و مشائخ عظام  کے تعزیت ناموں کو پڑھ کر لگا جاسکتے ہیں۔

محترم قارئین!   حضور چشتی میاں علیہ الرحمہ کے انتقال پر ملال کے موقع پر علماے کرام و مشائخ عظام نے اپنے تعزیتی نامے پیش کیے ہیں۔

آپ حضرات کچھ اقتباسات ملاحظہ کریں:


استاذ العلما جامع معقولات و منقولات شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد عاقل رضوی مصباحی شیخ الحدیث و پرنسپل جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف تحریر فرماتے ہیں:

"یہ خبر سن کر بے حد صدمہ ہوا کہ شیخ طریقت نمونۂ اسلاف حضرت علامہ الحاج غلام عبد القادر چشتی میاں صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رحلت فرما گئے۔ ان کے  انتقال کی خبر سے علمی حلقوں میں اضطراب وغم کی لہر ہے ،بلاشبہ ان کے انتقال سے بڑا خلا محسوس ہورہا ہے

وہ نہایت سادہ طبیعت ،عالی ظرف اوربزرگوں کی روایتوں کے امین تھے۔

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ سے  عقیدت، عشق کی حد تک تھی، ہر سال بلا ناغہ عرس رضوی میں شریک ہوتے اور ان کا مستقل قیام راقم الحروف کے روم میں رہتا ،اکثر قل شریف کے بعد شب میں یا اگلے دن واپسی ہوتی،میں نے  انھیں قریب سے دیکھا ،نہایت بلند اخلاق اور اصاغر نواز پایا

ان کے بلند اخلاق نے مجھے بے پناہ متأثر کیا ،عرس کے ایام میرے کمرے کی ایک چابی ان کے پاس رہتی وہ اور حضرت مولانا محمد سمیع اللہ صاحب اکثر قل شریف کی فاتحہ اسی روم میں کرتے بلکہ غالبًا استاذ العلما حضرت علامہ محمد نعیم اللہ خاں صاحب کے زمانے ہی سے وہ کمرہ عرس کے ایام میں ان کی قیام گاہ رہا۔

جب فرصت میں ان سے ملاقات ہوتی تو وہ بڑے اچھے انداز میں اکابر علمابالخصوص حضرت علامہ عبد المصطفیٰ صاحب اعظمی کے سبق آموز واقعات سناتے"


حضرت علامہ مولانا محمد طاہر القادری کلیم فیضی بستوی (سربراہ اعلیٰ مدرسہ انوار الاسلام سکندر پور ضلع بستی یوپی)

اپنے تعزیت نامے میں لکھتے ہیں:

"عالم جلیل شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج الشاہ غلام عبد القادر چشتی علیہ الرحمہ نائب مہتمم

دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف ایک بڑے سادہ لوح اور نیک انسان تھے۔

وہ جہاں علم وعمل کی فضیلتوں سے آراستہ و پیراستہ تھے وہیں ان کو ایک اہم اضافی نسبت بھی حاصل تھی کہ وہ ایک عظیم بزرگ ہستی کے شہزادے بھی تھے اور صاحب الفضیلۃ و صاحب تقویٰ و طہارت اور انتہائی عبادت گزار اور ساتھ ہی وہ بڑے خلیق و ملنسار اور متواضع شخصیت کے حامل تھے۔دینی امور سر انجام دینے میں بھی بڑے متحرک و سرگرم عمل رہتے تھے، ہمارے درمیان سے ان کا اٹھ کر چلے جانا جماعت اہل سنت کا ایک بہت بڑا خسارہ ہے"۔


اور حضرت مولانا محمد وسیم فیضی رضوی

اپنے تعزیت نامے میں تحریر فرماتے ہیں:


کہ حضرت علامہ الحاج الشاہ غلام عبد القادر چشتی علیہ الرحمہ نہایت مشفق اور ملنسار منکسر المزاج تھے آپ تقریباً کئ سالوں تک دار العلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف میں نائب مہتمم کے عہدے پر گامزن ہو کر خدمت دین میں مصروفِ کار رہے"


حضرت مولانا عبیدہ العاصی ابو الشفا محمد معصوم رضا صدیقی اشرفی عاصم بھاگل پوری 

اپنے تعزیت نامے میں یوں لکھتے ہیں:


"آہ آج بھی اہل سنت کا ایک ستارہ ٹوٹ گیا۔

آج جب موبائل آن کیا تو واٹسپ کے ذریعہ نظر ایک ایسی خبر پر جا کر ٹھہر گئی اور کچھ دیر کےلیے سکتہ طاری ہو گیا مگر مرضی مولی تعالی ازہمہ اولی۔یقینا خانوادہ یارعلویہ اور خانقاہ عالیہ فیض الرسول بالخصوص دارالعلوم اہل سنت فیض الرسول براؤں شریف کی ایک منفرد اور متحرک و فعال شخصیت کا نام نامی اسم گرامی نبیرہ حضور شعیب الاولیاء و شہزادہ اکبر حضور مظہر شعیب الاولیاء علیہ الرحمۃ والرضوان گل گلزار علویت حامی سنیت پیر طریقت حضرت العلام الحاج الشاہ غلام عبد القادر چشتی یار علوی نوراللہ مرقدہ کا انتقال پر ملال قوم و ملت کا ایک عظیم سانحہ و خسارہ ہے۔

آگے لکھتے ہیں:

انکی تقوی شعار زندگی ہم سب کےلیے مشعل راہ و نمونہ ہے فقیر اشرفی اپنے زمانہ طالب علمی میں تقریبا ۵/ سال تک ان کے حسن ظاہر اور  اوصاف حمائد کو اچھی طرح دیکھا سمجھا ہے آپ کی ذات وشخصیت باکمال اور قوم و ملت کےلیے وفادار اور نہایت ہی مخلص و کرم فرما اور خلیق الطبع تھی مقناطیسی صلاحیت کے حامل و مصداق تھے خلق خدا بہت جلد آپکی ذات وشخصیت سے متاثر و مانوس ہوکر آپ سے قریب ہو جایا کرتی تھیں رب کریم ان کی اولادوں میں ان کی خوبیوں کو ودیعت اور منتقل فرما کر ان کا نعم البدل بنائے اور ہم غلاموں پر ان کا فیضان جاری وساری رکھے"


حضور ارشدملّت حضرت پیر ابُوالبرکات محمد ارشد سبحانی المعروف سرکار پیرمحبوبِ سُبحانی مدظلہ النُّورانی اپنے تعزیت نامے میں یوں لکھتے ہیں

" 3/جنوری 2023ء کو رات تقریباً دو بجے شہزادۂ حضور مظہرِ شعیب الاولیاء پیر طریقت حضرت علامہ الحاج الشّاہ غلام عبد القادر علوی چشتی قادری علیہ الرحمہ نائب مُہتمم دارُالعلوم فیضُ الرسول براؤں شریف سدھار تھ نگر کا انتقال پر ملال ہوگیا۔

یہ اطلاع پاکر دل کو گہرا صدمہ پہنچا ، حضرت موصوف نے چند ماہ قبل سواداعظم اہل سنت مسلک اعلٰی حضرت کاعظیم بے باک ترجمان ، انٹرنیشنل مجلّہ ” ماہنامہ ارشدیہ “  کے تعلق سے اپنا ایک قیمتی تأثر بھیجا تھا ، جسے پڑھ کر مجھے بڑی مسرت حاصل ہوئی تھی"


اور حضرت مولانا ابوحسام سید قمر الاسلام

خانقاہ ولیہ قادریہ، جہاں گیر نگر، فتح پور اپنے تعزیتی پیغام میں تحریر کرتے ہیں:

"کہ آپ شعیب الاولیاء کے اخلاف میں نامور عالم دین، دانش مند، اعلی ظرف اور خوش اطوار انسان تھے-

ہمارے خانوادے جھونسی شریف سے نیازمندانہ محبت رکھتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے جد کریم حضرت شعیب الاولیاء سہروردی سلسلے میں خاکسار کے جد بزرگوار(لکڑ دادا)  سیدنا مخدوم سید عبد الشکور سہروردی قدس سرہ العزیز کے مجاز وماذون تھے- یہ ایک دیرینہ نسبت تھی جس کے سبب حضرت مولانا محترم جھونسوی نسبتوں کے بڑے قدر دان تھے-ان کے انتقال سے مجھے دہرا رنج پہنچا ، ایک تو یہ کہ ان کی خانقاہ اور ادارہ، ایک مخلص سرپرست سے محروم ہو گئے ، دوسرا یہ کہ سماج  ایک وسیع الظرف، صاحب علم اور اعلی اقدار والے انسان سے محروم ہو گیا"-



اور حضرت مولانا شبیر الٰہی قادری (براؤں شریف سدھارتھ نگر یوپی)

اپنے تعزیتی پیغام میں لکھتے ہیں:

نہایت ہی افسوس اور رنج و الم کے ساتھ یہ خبر دیتے ہوئے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے کہ کل تک جس ہستی نے اپنے فیوض و برکات سے ایک مدت تک عالم اسلام کی خدمت کی، روح اسلام کو منور کیا، شریعت کی پاسداری کی، طریقت میں نمایاں کردار ادا کیا وہ ذات آج ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی"


حضرت مولانا صاحب علی یارعلوی نزیل نواب گنج کیسا کالونی کانپور یوپی اپنے تعزیتی نامے میں تحریر کرتے ہیں:

"کہ جماعت اہلسنت کے ممتاز عالم دین بین الاقوامی شہرت کی حامل درسگاہ دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول براؤں شریف کے نائب ناظم اعلی شیخ طریقت نبیر شعیب الاولیا شہزادہ مظھر شعیب الاولیا حضرت علامہ مولانا الحاج غلام عبدالقادر چشتی المعروف حضور چشتی میاں علیہ الرحمہ اس دار فانی سے دار بقا کی جانب روانہ ہوۓ حضور چشتی بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے خود بھی پابند شرع تھے اور اپنے اہل وعیال کو بھی سختی کے ساتھ پابند  رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے ہزاروں کی تعداد میں آپ کے مریدو و متوسلین ملک و بیرون ملک میں پاۓجاتے ہیں"


حضرت مولانا محمد سبطین رضا سبطٓین مرتضوی ناظم اعلیٰ جامعہ تاج الشریعہ دیناج پور

اپنی تعزیت میں یوں لکھتے ہیں:

" شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج غلام عبدالقادر چشتی  صاحب کی وفات حسرت آیات کی خبر سے بے حد صدمہ ہوا اور بے اختیار آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔ان کی وفات ہمارے لیے ایک عظیم سانحہ ہے، آپ کی وفات سے امت مسلمہ ایک عظیم علمی دینی، روحانی،شخصیت سے محروم ہوگئی ہے اور عالم اسلام میں ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کا پر ہونا بظاہر مشکل ہے۔ حضرت علامہ چشتی علیہ الرحمہ نہایت سادگی و یکسوئی اور اخلاص و للہٰیت کے ساتھ دینی و علمی خدمات میں مرض الوفات تک مشغول رہے اور ایک طویل عرصہ تک طالبان علوم نبوت کو اپنے علوم و معارف سے فیض یاب کرتے رہے۔ بلاشبہ ان کے تلامذہ و خوشہ چینوں کی جماعت ان کے لیے بہترین صدقۂ جاریہ ہے۔

دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول براؤں شریف سے حضرت والا نے نمایاں خدمات انجام دیں، دارالعلوم کے ذریعے علاقہ سے جہالت، بد دینیت اور تاریکی دور کرنے میں اہم کارنامہ انجام دیا جسے علاقے کے لوگ کبھی فراموش نہیں کریں گے بلکہ ہمیشہ حضرت علیہ الرحمہ کے احسان مند رہیں گے۔

  نیز ناچیز جو حضرت پر سوانح ترتیب دے رہا تھا پر افسوس کہ کتاب نہیں آئی اور حضرت اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے انشاء اللہ حضرت کے چالیسواں کے موقع پر وہ کتاب منظر عام پر آجائے گی"۔


حضرت مولانا اظہار احمد فیضی مہراجگنجوی  وارد حال بدر پور دہلی اپنے تعزیت نامے میں لکھتے ہیں:


"کہ حضور چشتی میاں صاحب قبلہ بڑے ہی نیک ،متقی پرہیزگار عابد شب زندہ دار محبتی ملنسار پاکباز شریف النفس اور اعلیٰ اخلاق وکردار کے مالک تھے 

آپ نے اپنی پوری زندگی  دین متین کی خدمت اور اسلام وسنیت کی ترویج واشاعت اور مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ کے لٸے وقف کردی تھی  بالخصوص دارالعلوم فیض الرسول کے فروغ وعروج میں آپ کی گراں قدر خدمات ناقابل فراموش ہیں  نیز پورے ہندوستان میں درجنوں مدارس کے سرپرست تھے خود اس خادم کے محبوب ادارہ دارالعلوم اہلسنت یار علویہ فیض الرسول نوڈہوا سکھوانی مہراجگنج کے سرپرست تھے 

چونکہ یہ آپ کا موروثی سلسلہ بھی ہے کہ ایک زمانے سے آپ کے گھرانے نے اسلام وسنیت کی رہنماٸ فرماٸی ہے اور مسلمانان عالم نے عشق وعرفان کا جام آپ کے گھرانے سے حاصل کیا ہے  

ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا ایک طویل عرصہ پر نہ ہوسکے گا"-


اور حضرت مولانا عبداللہ عارف صدیقی

یارعلوی فیضی،نزیل حال ممبئی اپنے تعزیت نامہ رقم کرتے ہیں:

کہ جماعت اہلسنت کے ممتاز عالم دین بین الاقوامی شہرت کی حامل درسگاہ دارالعلوم اہلسنت فیض الرسول براؤں شریف کے نائب ناظم اعلی شیخ طریقت نبیر شعیب الاولیا شہزادہ مظھر شعیب الاولیا حضرت علامہ مولانا الحاج غلام عبدالقادر چشتی المعروف حضور چشتی میاں علیہ الرحمہ اس دار فانی سے دار بقا کی جانب روانہ ہوۓ حضور چشتی بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے خود بھی پابند شرع تھے اور اپنے اہل وعیال کو بھی سختی کے ساتھ پابند  رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے ہزاروں کی تعداد میں آپ کے مریدو و متوسلین ملک و بیرون ملک میں پاۓجاتے ہیں"۔


اور حضرت مفتی غلام معین الدین چشتی فیضی (شیخ الحدیث و خادم الافتاء جامعہ اھل سنت فاطمتہ الزہرا ناراین نگر وخطیب و‌امام فاروقیہ جامع مسجد اندھیری ویسٹ ممبئی 58)

اپنے تعزیتی تحریر میں فرماتے ہیں:

"استاذ گرامی وقار اعلی قدر و منزلت شہزادہ حضور مظھر شعیب الاولیاء حضرت علامہ غلام عبدالقادر چشتی قادری یارعلوی فیضی علیہ الرحمہ ایک با صلاحیت عالم دین وعابد شب زندہ دار تھے آپ حضور مظہر شعیب الاولیا کے عکس جمیل تھے اور خانقاہ فیض الرسول کے بڑے متقی وپر ہیزگار پیر و مرشد طریقت تھے علم نحو و صرف وعربی ادب میں ملکہ تامہ حاصل تھا مجھ جیسے ہزاروں شاگردوں کو سنوارنے اور با صلاحیت بنانے میں زبردست کردار نبھایا ہر وقت پیچھے لگ کے تعلیم حاصل کرنے کی جانب رجحان پیدا کرنے میں آپ کی محنت شاقہ کو بڑا دخل ہے ہم لوگ آپ کایہ احسان کبھی نہیں بھول پاءیں گے اوراد و وظائف سے آپ کو بڑا لگاؤ تھا دارالعلوم کی مرکزی بلڈنگ دار الاقامہ و دار الحدیث ودرسگاہ جدید ساری عمارتوں کا رات میں دورہ کہ طلبہ پڑھ رہے ہیں یا سورہے ہیں یا گپ شپ میں ہیں موقع پر غافلوں کو تنبیہ الغافلین سے ملاقات بھی کرواتے تھے پھر فجر کی نماز کے لیے سارے طلبہ کو جگانے جاتے  اور سب کو مسجد شعیب الاولیاء تک پہونچا تے یہ سب ایک دو روز تو آسان لگ سکتا ہے لیکن اسے اپنا فرض منصبی سمجھ کر ڈیلی روٹنگ بنا لینا انتہائی مشکل کام ہے لیکن آپ یہ سب ادیب خاطر انجام دیتے تھے کسی کا پریشر نہیں تھا اور کون پریشر کرتا آپ تو نائب مینیجر تھے آپ کو طلبہ کی زندگی سنوارنے کی بڑی فکر تھی اور یہ بڑا مجاھدانہ کردار تھا جب گورنمنٹی امتحان کا زمانہ آتا تو اپنی مساعی تیز کر دیتے بچوں کو دستی لے جانے اور لانے تک نیز امتحان دلوانے اور تیاری کروانے تک ہر چیز کا پورا خیال رکھتے تھےآپ کی یہ خدمتیں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں"- 


اور حضرت مولانا مفتی احمد رضا اعظمی رضوی مصباحی اپنے تعزیتی پیغام میں لکھتے ہیں:

"خاندان حضور شعیب الاولیا کے چشم و چراغ شیخ طریقت شہزادۂ مظہر شعیب الاولیا حضرت علامہ مولانا الشاہ غلام عبد القادر چشتی علوی علیہ الرحمہ آپ زہد وورع، تقوی وپرہیزگاری، اخلاص وقناعت اور طہارت وپاکیزگی میں اپنے والد گرامی اور جد امجد علیھما الرحمۃ والرضوان کے پرتو اور عکس جمیل تھے سلسلۂ عالیہ قادریہ یارعلویہ کو پھیلانے میں جہاں آپ نے  ایک فرزند ارجمند اور سچے جانشین کا کردار ادا کیا وہیں مسلک اعلی حضرت کی اشاعت و حفاظت میں ایک باوقار محافظ وپاسبان مسلک اعلی حضرت کی حیثیت سے جہاد زندگانی کا نصب العین بنایا اور سہ ماہی پیام شعیب الاولیاء کی سرپرستی کرتے ہوئے مسلک اعلی حضرت کے انمٹ نقوش قرطاس وقلم کی  رہتی دنیا کےلئے بطور یادگار باقی چھوڑا اس قدر کثیر گونا گوں خوبیوں والا مومن صالح جب دنیا چھوڑ کر آخرت کی طرف کوچ کرتا ہے تو وہ  سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ کے اس مبارک  شعر کا مصداق ہوتا ہے کہ

۔عرش پر دھومیں مچیں وہ مؤمن صالح ملا۔

  فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب وطاہر گیا۔

اور اس کی زندہ دلی کی بدولت نیک دلوں میں اس کی یاد تازہ اور محبت باقی رہتی ہے اور وہ  حافظ شیرازی علیہ الرحمہ کے اس شعر کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ 

۔ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق۔ 

ثبت ست برجریدۂ عالم دوام ما۔

(جس کا دل عشق سے زندہ ہوگیا وہ ہرگز مرکر نیست و نابود نہیں ہوتا جریدۂ عالم پہ ہماری جاودانی وبقا ثابت ومسلم ہے ) 

آپ کی رحلت سے نہ صرف خانوادۂ یارعلویہ کے فرزندان ومتوسلین ومریدین غمگین وافسردہ ہوئے  بلکہ تمام محبین حضور شعیب الاولیاء بھی سوگوار ہیں"-


واقعی حضور چشتی میاں علیہ الرحمہ کی دینی و ملی خدمات اور خانقاہوں و مدارس اہل سنت سے وابستہ شخصیات سے والہانہ عقیدت و محبت کے ساتھ سنی رسائل و جرائد سے بھی وابستہ رہتے اور خوش دلی سے اپنا بیش قیمت تاثر بھی تحریر فرماتے اور مسلک اہل سنت یعنی مسلک اعلی حضرت کی تبلیغ و اشاعت کے  لیے ہمیشہ کوشاں رہتے زندگی کے آخری لمحات تک یہی دستور العمل رہا۔اور دینی کام کرنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے۔اور علماء کرام و مشائخ عظام بھی علمی و دینی حلقوں و مجالس میں آپ کو ہمیشہ کلمات تحسین سے یاد کرتے تھے۔

اور آپ کے انتقال پرملال کے موقع پر علماء کرام و مشائخ عظام کی مذکورہ تعزیتی تحریرات اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت علامہ مولانا الحاج صوفی غلام عبد القادر چشتی میاں علیہ الرحمہ ایک مقبول ترین شخصیت کے مالک تھے۔

اللہ رب العزت جل جلالہ حضرت کو غریق رحمت فرمائے ۔

آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔


محمد نفیس القادری امجدی 

مدیر اعلی سہ ماہی عرفان رضا مرادآباد۔

پرنسپل جامعہ قادریہ مدینۃ العلوم گلڑیامعافی و خطیب و امام اعلی حضرت جامع مسجد منڈیا گنوں، سہالی کھدر،مرادآباد، یوپی، الہند۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے